• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 164995

    عنوان: زکات اور عشر ادا كرنے كا وقت كیا ہے؟

    سوال: ہم نے اپنی زمین کا زیادہ حصہ ٹھیکے پر دے رکھا ہے جس کے بدلے ہمیں سالانہ دو قسطوں میں فکس رقم مل جاتی ہے۔ زمین کا کچھ حصہ ہم نے آم کا باغ لگا رکھا ہے جس کی دیکھ بھال ہم خود کرتے ہیں اور جب پھل تیار ہو جاتا ہے تو ہم خود منڈیوں میں نہیں بیچتے بلکہ کسی دوسرے شخص کو بیچ دیتے ہیں تاکہ ہمیں محنت نہ کرنی پڑے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر زکات لگے گی یا عشر؟ اور جو زمین ٹھیکے پر نہیں ہے جس میں باغ لگا ہے اس پر زکات لگے گی یا عشر کیونکہ ہم پھل تو خو تیار کرتے ہیں مگر منڈیوں تک جاکر خود نہیں بیچتے؟ تیسرا اہم سوال: زکات اور عشر میں جو بھی لاگو ہوتا ہے اس کی ٹائمنگ بتادیں، مطلب سالانہ کب کب ادا کرنی ہوگی؟

    جواب نمبر: 164995

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1552-1406/L=1/1440

    (۱، ۲) رقم کے عوض زمین کو ٹھیکے پر دینا از ر وئے شرع درست ہے جہاں تک مسئلہ ہے زمین پر عشر یا زکات کا توپاکستان کی اراضی کے سلسلے میں وہاں کے مفتیان کرام سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ حضرات وہاں کے اعتبارے سے حکم شرعی سے مطلع فرمادیں۔

    (۳) عشر تو پیداورا کے کٹنے پر نکالا جائے گا جس وقت کٹ جائے عشر نکال دیا جائے اور زکات نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر آدمی صاحب نصاب ہے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ۶۱۲/ گرام ۳۶۰/ ملی گرام کی مالیت سونا چاندی روپئے اور سامان تجارت کے کل یا بعض سے مل کر ہو تو سال گزرنے کے بعد اس کے پاس جتنی مالیت ہے اس کا ڈھائی فیصد نکالنا ضروری ہوگا بلا شرط نصاب وبلا شرط بقاء وحولان حول لأن فیہ معنی الموٴنة (درمختار: ۳/۲۶۶، ط: زکریا دیوبند) ومن کان لہ نصاب فاستفاد فی أثناء الحول مالا من جنسہ ضمہ الی مالہ وزکاہ سواء کان المستفاد من نمائہ أولا وبأی وجہ استفاد ضمہ سواء کان بمیراث أو ہبة أو غیر ذلک (فتاوی ہندیہ: ۱/۱۹۳، ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند