• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 163169

    عنوان: زکوة کی رقم مکتب کی پینٹنگ میں خرچ کرنے کا حکم

    سوال: حضرت، میرے گھر کے پاس دینیات مکتب ہے جس میں بچے پڑھتے ہیں لیکن رہتے نہیں ہیں، کیا اس مکتب میں زکات کی رقم سے پینٹنگ کروانا جائز ہے؟

    جواب نمبر: 163169

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1088-919/N=10/1439

     شریعت میں زکوةکے خاص مصارف متعین کیے گئے ہیں، جن میں بنیادی طور پر مستحق شخص کو بااختیار مالک بنانا پایا جاتا ہے اور کسی بھی اقامتی یا غیر اقامتی مدرسہ یا مکتب میں عمارت کی تعمیر یا پینٹنگ کا کام یا اساتذہ وملازمین کی تنخواہیں ، ان متعینہ مصارف میں سے نہیں ہیں، نیز ان میں مستحق کو بلا عوض مالک بنانا بھی نہیں پایا جاتا؛ اس لیے زکوةکا پیسہ کسی مدرسہ یا مکتب کی پنیٹنگ کے اخراجات میں صرف کرنا جائز نہ ہوگا۔

    قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورة التوبة: ۶۰)، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ،……ولا إلی بنی ھاشم الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵-۲۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، یصرف المزکي إلی کلھم أو إلی بعضھم،…… ویشترط أن یکون الصرف تملیکا، …،لا یصرف إلی بناء نحو مسجد (المصدر السابق،، ص:۲۹۱)، قولہ:”نحو مسجد“:کبناء القناطر والسقایات وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج والجھاد وکل ما لا تملیک فیہ۔ زیلعي (رد المحتار)، ومثلہ في مجمع الأنھر (کتاب الزکاة، ۱:۳۲۷،۳۲۸، ط:دار الکتب العلمیة، بیروت)، حیث قال:ولاتدفع الزکوة لبناء مسجد؛لأن التملیک شرط فیھا ولم یوجد، وکذا بناء القناطیر وإصلاح الطرقات وکري الأنھار والحج وکل ما لا تملیک فیہ اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند