• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 162779

    عنوان: خریدے ہوئے مکان کی مابقیہ قیمت کی زکوة بائع اور مشتری میں سے کس پر واجب ہوگی؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ کے بارے میں ۔ زید نے عمر سے بیس لاکھ روپیہ میں ایک مکان خریدا۔ زید نے معاملہ اس طرح کیا کے وہ بارہ لاکھ روپیہ نقد ادا کریگا اور باقی ایک سال کے بعد ،زید نے بارہ لاکھ روپیہ دے کر مکان قبضہ میں لے لیا۔زید (مشتری (اور عمر(بائع دونوں صاحب نصاب ہیں اور ہر سال رمضان المبارک میں زکوة ادا کرتے ہیں ۔ جواب طلب یہ ہے کے دو تین مہینے میں رمضان آیا تو باقی آٹھ لاکھ روپیہ پے زکوٰة کس کے ذمہ میں ہوگا ۔یہ حقیقت ملحوظ رکھا جائے کے زید(مشتری کسی مصلحت سے آٹھ لاکھ ادا کرنے کے لئے ایک سال کی مہلت مانگی۔ورنہ وہ پوری رقم ایک نشست ادا کرنے پر قادر ہے ۔

    جواب نمبر: 162779

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1075-950/N=11/1439

    صورت مسئولہ میں مکان خریدار: زید پر جس دن زکوة کا سال مکمل ہوا، اگر اس دن سے ایک سال کے اندر اندر اسے ما بقیہ رقم: آٹھ لاکھ روپے ادا کرنا ہے تو وہ مال زکوة سے آٹھ لاکھ روپے منہا کرکے باقی کی زکوة ادا کرے گا، یعنی: آٹھ لاکھ دین ہونے کی وجہ سے زید پر ان کی زکوة واجب نہ ہوگی۔ اور عمر کو چوں کہ ابھی مابقیہ: آٹھ لاکھ روپے وصول ہی نہیں ہوئے ؛ اس لیے ابھی عمر پر ان کی زکوة واجب نہیں؛ البتہ جب وصول ہوجائیں گے تب ان کی زکوة کا مسئلہ ہوگا، جس کی تفصیل یہ ہے کہ عمر نے جو مکان فروخت کیا ہے، اگر وہ اس نے فروخت کرنے ہی کی نیت سے خریدا تھا فروخت کرنے ہی کی نیت سے پلاٹ خرید کر بنایا تھا تو پیسے ملتے ہی گذشتہ سال کی زکوة ادا کرنی ہوگی۔ اور اگر وہ مکان تجارتی نہیں تھا تو ان پیسوں کی زکوة آئندہ سال واجب ہوگی۔ اور اگر آئندہ سال زکوة کی تاریخ آنے سے پہلے یہ پیسے خرچ ہوکر ختم ہوگئے تو ان کی کچھ زکوة واجب نہ ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند