• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 162118

    عنوان: کھیت کی پیداوار کی زکوة کا مسئلہ، کھیت والے کو زکوة دینا اور کن صورتوں میں بھائی بہنوں کو وراثت میں حصہ ملتا ہے؟

    سوال: حضرت کچھ سوال درج ذیل ہیں جواب دیکر مہر بانی فرمائیے ۱-کھیت کی فصل گیہوں ہوتی ہے تواس کی زکات کیسے نکالی جائے گی اور کتنے مقدار پر فرض ہے اور اگر کھیت منی پر دیا ہے تو پھر کس حساب سے دینی پڑے گی زکات؟ ۲) کتنے لوگ بولتے ہیں کہ انڈیا کے کھیت پر زکات فرض نہیں ہے کیا یہ صحیح ہے اور کیوں؟ ۳) اگر کسی کے پاس کچھ کھیت ہے ، لیکن مالی حالت ٹھیک نہیں ہے تو ایسے آدمی کو زکات دے سکتے ہیں؟ ۴)وراثت میں مرحوم کے ترکہ میں سے کس صورت حال میں اس کے بھائی اور بہن کو حصہ دیا جاتا ہے ؟

    جواب نمبر: 162118

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1035-908/N=11/1439

    (۱): دار العلوم دیوبند کے فتوے کے مطابق ہندوستان کی زمینیں نہ عشری ہیں اور نہ خراجی؛ اس لیے یہاں کی زمینات میں بہ طور زکوة عشر (پیداوار کا دسواں حصہ)یا نصف عشر (پیداوار کا بیسواں حصہ)وغیرہ کچھ واجب نہیں؛ البتہ پیداوار فروخت کرنے کی صورت میں پیسوں کی شکل میں جو آمدنی ہوگی، وہ عام آمدنی کے حکم میں ہوگی، یعنی: اگر وہ پیسہ یا اس کا کچھ حصہ صاحب نصاب کے پاس زکوة کا سال مکمل ہونے تک باقی رہتا ہے تو وہ دیگر پیسوں کے ساتھ اس کی بھی زکوة ادا کرے گا۔ اور اگر اس میں سے کچھ باقی نہیں رہتا تو اس کی زکوة واجب نہیں۔ اور اگر وہ شخص صاحب نصاب نہیں ہے تو نصاب مکمل ہونے کے بعد جب سال پورا ہوگا اور اس وقت بھی نصاب موجود رہے گا تو زکوة واجب ہوگی ورنہ نہیں۔

    (۲): جی ہاں! یہ بات صحیح ہے؛ کیوں کہ ہندوستان کی زمینیں مفتی بہ قول کے مطابق عشری نہیں ہیں۔

    (۳):اگر اس شخص کا گذارہ کھیت کی پیداوار سے ہوتا ہے اور وہ ناکافی ہے اور یہ شریعت کی نظر میں صاحب نصاب نہیں ہے تو اسے زکوة دے سکتے ہیں۔

    (۴): اگر مرحوم نے اپنے وارثین میں کوئی بیٹا، پوتا،باپ اور دادا کو نہ چھوڑا ہو تو بھائی بہنوں کو وراثت میں حصہ ملتا ہے ورنہ نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند