عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 156995
جواب نمبر: 156995
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:277-41/T=4/1439
حدیث شریف میں آیا ہے: لیس فیما دون مئتین من الورق شيء وفي مئتین خمسة یعنی دو سو درہم سے کم میں زکاة نہیں ہے، اور دو سو درہم میں پانچ درہم ہے۔ (اور دو سو درہم کا وزن 52.5 تولہ چاندی ہے) اسی طرح حدیث شریف میں آیا ہے، لیس علیک في الذہب زکاة ما لم یبلغ عشرین مثقالاً، یعنی بیس مثقال سے کم میں زکاة نہیں ہے (اس کا وزن 7.5 تولہ سونا ہے)؛ لہٰذا جن لوگوں کے پاس 52.5 تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو ان پر زکاة واجب ہوجائے گی، اسی طرح جن لوگوں کے پاس ان میں سے کسی ایک نصاب کے بقدر نقدی رقم ہوگی ان پر بھی زکاة واجب ہوجائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں کے پاس نقد روپیہ 52.5 تولہ چاندی کے بقدر تو ہے، مگر 7.5 تولہ سونے کے بقدر نہیں ہے، ان پر زکاة واجب ہوکی۔ أنہ یقولم ما في القیمتین من الدراہم والدنانیر حتی أنہا إذا بلغت بالتقویم بالدراہم نصابًا ولم تبلغ بالدنانیر قوّمت بما تبلغ بہ النصاب (بدائع الصنائع: ۲/۱۱۰)
(۲) پہلی مرتبہ چاند کی جس تاریخ میں آپ صاحب نصاب ہوئے تھے، جب تک آپ صاحب نصاب رہیں گے ہرسال اسی تاریخ میں زکاة واجب ہوتی رہے گی، اگر کسی سال حساب کرنے میں تاخیر بھی ہوجائے تب بھی اگلے سال صاحب نصاب ہونے کی اصل تاریخ میں ہی زکاة کا وجوب ہوگا۔
(۳) اگر آپ مالک بنانے کے قصد سے اپنے بھائی کو رقم حوالہ کرتے ہیں تو آپ کا بھائی مالک بن جائے گا، پھر اگلے سال اسی پر زکاة واجب ہوگی،آپ پر نہیں ہوگی۔
(۴) اپنے اصول یعنی ماں، باپ، دادا، دادی، اور نانی اوپر تک اور اپنے فروع یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی نیچے تک اور اپنی بیوی اسی طرح ”سید“ اور صاحب نصاب شخص، ان لوگوں کو زکاة دینا جائز نہیں ہے، اور انھیں دینے سے زکاة بھی ادا نہیں ہوتی ہے، ان کے علاوہ اپنے رشتہ داروں میں سے کسی بھی ایسے شخص کو جو نصاب کا مالک نہ ہو زکاة دی جاسکتی ہے؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں خالہ کا شوہر اگر صاحب نصاب نہیں ہے تو وہ مستحق زکاة ہے آپ اسے زکاة دے سکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند