• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 155047

    عنوان: اپنا نام مخفی ركھ كر ہدیہ بھجوانا

    سوال: سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ ہمارے محلہ میں ایک عالم ہیں ان کی آمدنی تھوڑی ہے ۔ اور یہ عاجز ان کو ہدیہ میں کچھ رقم دیا کرتا تھا۔ مگر انھوں نے پچھلی دفعہ آخری کہہ کر لے لیا کہ اس سے مجھے آپ کی طرف امید پیدا ہوتی ہے ۔ تو میں ان کے کام کی جگہ چلا گیا۔ اور اس کی تنخواہ دینے والے کو کچھ رقم دی تا کہ ان کو اپنی طرف سے دے دیں۔ وہ مان گئے ۔ کیا یہ سب درست ہے ۔ کسی کی مدد کرتے ہوئے کیا نیت کرنی چاہئے ؟

    جواب نمبر: 155047

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:18-3/d=2/1439

    عالم صاحب کا آپ کو منع کرنا اشراف نفس سے بچنے کے لیے تھا یعنی آپ کی طرف دل مائل ہوکر منتظر اورمتوجہ نہ رہے یہ توجہ الی اللہ اور توکل میں مانع ہوتا ہے۔ لیکن آپ بالکل خلاف توقع نئے انداز اور طریقے پیش کردیں تو اسم میں حرج نہیں کیونکہ متوکلین ومتیقن کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہی طریقہ تجویز فرمایا ہے ویرزقہ من حیث لا یحتسب یعنی اللہ تعالی انھیں ایسے طریقے پر رزق پہنچاتے ہیں جس کا انھیں وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔

    لہٰذا آپ نے تنخواہ میں اضافہ کا جو طریقہ سوچا ہے یہ جائز تو ہے لیکن یہ ان کی کمپنی میں کارکردگی اور خدمات کا عوض بن جائے گا اور پوری رقم کو وہ تنخواہ سمجھیں گے اور دوسری طرف وہ خالص ہدیہ نہ رہ کر عوض ٹھہرجائے گا ہوسکتا ہے کہ یہ طریقہ بھی ان کے قلب صافی پر بار ہو، اور معلوم ہوجانے پر ناگوار ہو۔

    لہٰذا آپ ان سے درخواست کریں کہ بلاکسی شرط اور قید کے اور بغیر کسی پابندی کے نہ وقت کی نہ مقدار کی آپ بھی کبھی کبھار ہدیہ پیش کرنے کی اجازت مرحمت فرمادیں اور اگر اس کا کوئی اور مناسب طریقہ آپ کے نزدیک ہو تو وہ بھی بتلادیں کیوں کہ ہدیہ محبت کی علامت اور اس کا اثر اور نتیجہ ہوتا ہے اور ہدیہ پیش کرنا اظہار محبت کا طریقہ ہے اسی لیے ہدیہ قبول کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورمعمول تھا۔ نیز بزرگان دین کے یہاں ہردور میں ہدایا کے لین دین کا معمول رہا ہے۔ امید ہے کہ وہ آپ مفید مشورے سے نوازیں گے اپنی خواہش پر ان کی خواہش کو مقدم رکھیں۔

    دوسری بات جو آپ (مستفتی) کو بتلانی ہے کہ عالم، شیخ ، والدین کو ہدیہ ضرورت مند اور محتاج سمجھ کی نہیں دینا چاہیے، اگرچہ وہ ضرورت مند ہوں تو بھی بلکہ اظہار عقیدت ومحبت کے طور پر دینا چاہیے اور ان کے قبول کرلینے کی آس اور تمنا ہونی چاہیے #

    گر قبول افتد زہے عز وشرف

    پس آپ اپنی نیت کی تصحیح کرلیں اورعالم صاحب کو محتاج وضرورت مند سمجھ کر دینے کا خیال بھی دل سے نکال دیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند