• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 15255

    عنوان:

    میں نے 26ستمبر2000سے نوکری کرنا شروع کیا ہے میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ اگلے 25ستمبر2001کو زکوة نکالنا پڑے گی (جب کہ میں صاحب نصاب ہوں) ۔اگر میں صاحب نصاب نہیں ہوا اور 15دسمبر 2001کو صاحب نصاب ہواتو مجھ کس تاریخ کو دھیان میں رکھ کر زکوة دینی ہے، 25ستمبر یا پھر 15دسمبر، مجھے زکوة کے لیے کس تاریخ کے حساب سے زکوة دینی پڑے گی؟ (۲)میرے ایک دوست کے والد صاحب سیونگ اکاؤنٹ میں پیسے رکھتے ہیں وہ زکوة بھی ادا کرتے ہیں، انکم ٹیکس بھی دیتے ہیں انھوں نے انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے جیون بیمہ اور ایل آئی سی لے رکھی ہے اور شیئر بھی لے رکھے ہیں۔ ساری رقم بینک میں جاتی ہے۔ اسے یہ جاننا ہے کہ جب اس کے والد کے بعد بینک میں رکھی گئی رقم جس میں کہ سود بھی شامل ہے اس کو کس طرح استعمال میں لائیں؟ تفصیل سے بتانے کی مہربانی کریں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

    سوال:

    میں نے 26ستمبر2000سے نوکری کرنا شروع کیا ہے میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ اگلے 25ستمبر2001کو زکوة نکالنا پڑے گی (جب کہ میں صاحب نصاب ہوں) ۔اگر میں صاحب نصاب نہیں ہوا اور 15دسمبر 2001کو صاحب نصاب ہواتو مجھ کس تاریخ کو دھیان میں رکھ کر زکوة دینی ہے، 25ستمبر یا پھر 15دسمبر، مجھے زکوة کے لیے کس تاریخ کے حساب سے زکوة دینی پڑے گی؟ (۲)میرے ایک دوست کے والد صاحب سیونگ اکاؤنٹ میں پیسے رکھتے ہیں وہ زکوة بھی ادا کرتے ہیں، انکم ٹیکس بھی دیتے ہیں انھوں نے انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے جیون بیمہ اور ایل آئی سی لے رکھی ہے اور شیئر بھی لے رکھے ہیں۔ ساری رقم بینک میں جاتی ہے۔ اسے یہ جاننا ہے کہ جب اس کے والد کے بعد بینک میں رکھی گئی رقم جس میں کہ سود بھی شامل ہے اس کو کس طرح استعمال میں لائیں؟ تفصیل سے بتانے کی مہربانی کریں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

    جواب نمبر: 15255

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1511=1233/د

     

    (۱) آپ ۱۵/ دسمبر ۲۰۰۱ء میں صاحب نصاب ہوئے ہیں تو اس کے پورے ایک سال گذرجانے پر آپ کے ذمہ زکات کی ادائیگی واجب ہوگی اس وقت جس قدر بھی نقد روپئے، سونا، چاندی وغیرہ ہوں سب کی قیمت پر ڈھائی (2.5%)فیصد زکات اداء کریں۔ زکات کی ادائیگی میں قمری تاریخ (چاند کے مہینوں)کا اعتبار ہوتا ہے، اس لیے آپ یہ دیکھ لیں کہ ۱۵/ دسمبر ۰۰۱ء میں چاند کے حساب سے کونسا مہینہ اور کونسی تاریخ تھی ہرسال چاند کے اسی مہینہ اور تاریخ میں آپ زکات کا حساب کرلیا کریں، جو مقدار زکات کی واجب ہو، خواہ اسی وقت نکال کر علاحدہ کردیں یا تھوڑا تھوڑا ادا کرتے رہیں، مگر حساب اسی متعینہ تاریخ اور مہینہ میں کرلیا کریں۔

    (۲) بینک میں جو اصل رقم والد کی جمع کردہ ہے، اسی طرح جیون بیمہ ایل آئی سی میں بھی جو رقم کہ اصل جمع کردہ ہے، بس انھیں اصل رقموں کا اپنے استعمال میں لانا ان کے لیے یا ان کی اولاد کے لیے جائز ہے، اس کے علاوہ اضافی رقمیں خواہ بینک سے سود کے نام سے ملی ہوں یا انشورنس کمپنی کی طرف سے ملی ہو، انھیں اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، بلکہ ان رقموں کو نکال کر غرباء مساکین مستحقین زکات پر بلانیت ثواب خرچ کردینا واجب ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند