• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 149379

    عنوان: تملیك كا كیا طریقہ ہے؟

    سوال: حضرت مفتی صاحب برائے مہربانی مندرجئہ ذیل سوالات کا جواب دے کر عند اللّٰہ ماجور ہوں؛ (۱) تملیک کا صحیح طریقہ کیا ہے عملاً، قولاً، تحریراً ؟ (۲) تملیک کس کس مد کے اموال میں درست ہو سکتی ہے ؟ (۳) کیا مدرسے کے ان بالغ لڑکوں کے ذریعہ تملیک ہو سکتی ہے جن کے والدین صاحب نصاب ہیں جب کہ خود یہ لڑکے صاحب نصاب نہیں اور ان کا خرچ ان کے والدین پورا کرتے ہیں۔ (۴) کیا سفیر کو تنخواہ اس کے لائے ہوئے زکوة و فطرات میں سے قبل التملیک دی جا سکتی ہے ؟ نیز سفیر کو تنخواہ دینے کا ایسا کون سا صحیح طریقہ ہے کہ پَرسَنٹِیز کے ناجائز طریقے سے بچا جا سکے اور سفیر دلجمعی کے ساتھ اپنا کام بھی انجام دے کیونکہ پرسنٹیز نہ دینے کی صورت میں وہ صحیح سے چندہ نہیں کرتے ۔ کیا مدرسے کے جو بچے رہنے ، کھانے نیز تعلیمی فیس دے سکتے ہیں ان سے اس طرح فیس لینا جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 149379

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 588-685/B=7/1438

    (۱) تملیک کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مدرسہ میں آئی ہوئی زکاة کی رقم بطور وظیفہ طلبہ کو دیدیں اور طلبہ کو ہدایت کردیں کہ یہ رقم اپنی فیس طعام وتعلیم وغیرہ میں مدرسہ کو دیدیں تو یہ رقم آپ طلبہ کے کھانے پینے میں بھی صرف کرسکتے ہیں اور اسی فیس سے مدرسین کی تنخواہ بھی دے سکتے ہیں۔

    (۲) زکاة، صدقہٴ فطر، نذر وفدیہ کی رقم اور کفارہ کی رقم میں یعنی جو رقم واجب التصدق ہے اس سب میں نمبر ایک کے مطابق تملیک ہوسکتی ہے۔

    (۳) جی ہاں ہوسکتی ہے۔

    (۴) سفیر کو زکاة وصدقہ فطر کی رقم تملیک سے پہلے دینا جائز نہیں، سفراء کی ماہانہ کی تنخواہ مقرر فرمادیں۔ متمول بچوں سے فیس لے سکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند