عبادات >> زکاة و صدقات
سوال نمبر: 149091
جواب نمبر: 149091
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 767-850/L=7/1438
(۱) زکاة اس مال کو کہتے ہیں جو صاحب نصاب شخص سے سال گذرنے کے بعد اپنے مال کا چالیسواں حصہ نکالتا ہے۔
(۲) زکاة اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس قرض اور حاجت اصلیہ سے فارغ سونے / چاندی/ نقدی/ سامانِ تجارت اس مقدار میں ہوں کہ ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ (612.360 گرام) چاندی کی مالیت کو پہنچ جائے، اگر کسی کے پاس ان اشیاء میں سے بعض ہوں تو ان میں بھی مالیت کا اعتبار ہوگا، اگر مالیت 613 گرام چاندی کی قیمت کو پہنچ جاتی ہے تو زکاة واجب ہوگی ورنہ نہیں؛ البتہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو، چاندی نقدی سامان تجارت بالکل نہ ہو تو زکاة کے وجوب کے لیے 87گرام 479ملی گرام سونے کا ہونا ضروری ہوگا۔
(۳) زکاة جن چیزوں میں واجب ہوتی ہے، ان سے بھی زکاة نکال سکتے ہیں اور اس کے بدلے نقد روپئے سے بھی نکال سکتے ہیں، روپے سے زکاة نکالنا چونکہ انفع للفقراء ہے اس لیے روپے سے زکاة نکالنا بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند