• عبادات >> زکاة و صدقات

    سوال نمبر: 13470

    عنوان:

    بمبئی میں یہاں لوگوں کی سودی رقم کروڑوں میں ہے، کیا ہم اسے اکٹھا کرکے اجتماعی مندرجہ ذیل مصرف پر خرچ کرسکتے ہیں؟: (الف) کوئی سلائی سینٹر یا ڈرائیونگ سینٹر بناکر اس تجارتی سینٹر میں کام پر لگوایا جائے اور اس سے حاصل کردیہ منافع کا مالک بنایا جائے، کیا یہ صورت جائز ہے؟ مثلاً ۱۰/ رشکا خریدی، اور تیں شفٹ میں تین آدمی ڈرائیونگ پر متعین کیے، اور اس وقت میں جو کمائی آئی اس میں سے مینٹینس (maintainance) نکال کر اسے دیا جائے، جو عام طور پر بمبئی میں رائج ہے، اس طرح ہاتھ گاڑی، سلائی مشین وغیرہ یا کوئی صنعتی کارخانہ ریلوے اسٹیشن پر بیت الخلاء بنوانا، استنجاء کے انتظام کے ساتھ۔ (ب) مسلم علاقوں کی صفائی، کچرا صاف کرنے والے کارکن، گاڑیاں اور نالوں کا انتظام۔ (ج) جیل میں اخلاقی تعلیم۔ (د) جھوپڑپٹی کے بچیوں کا تعلیمی نظم۔

    سوال:

    بمبئی میں یہاں لوگوں کی سودی رقم کروڑوں میں ہے، کیا ہم اسے اکٹھا کرکے اجتماعی مندرجہ ذیل مصرف پر خرچ کرسکتے ہیں؟: (الف) کوئی سلائی سینٹر یا ڈرائیونگ سینٹر بناکر اس تجارتی سینٹر میں کام پر لگوایا جائے اور اس سے حاصل کردیہ منافع کا مالک بنایا جائے، کیا یہ صورت جائز ہے؟ مثلاً ۱۰/ رشکا خریدی، اور تیں شفٹ میں تین آدمی ڈرائیونگ پر متعین کیے، اور اس وقت میں جو کمائی آئی اس میں سے مینٹینس (maintainance) نکال کر اسے دیا جائے، جو عام طور پر بمبئی میں رائج ہے، اس طرح ہاتھ گاڑی، سلائی مشین وغیرہ یا کوئی صنعتی کارخانہ ریلوے اسٹیشن پر بیت الخلاء بنوانا، استنجاء کے انتظام کے ساتھ۔ (ب) مسلم علاقوں کی صفائی، کچرا صاف کرنے والے کارکن، گاڑیاں اور نالوں کا انتظام۔ (ج) جیل میں اخلاقی تعلیم۔ (د) جھوپڑپٹی کے بچیوں کا تعلیمی نظم۔

    جواب نمبر: 13470

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 863=683/ل

     

    سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ اس کو بلانیت ثواب فقراء مساکین محتاجوں بیواوٴوں وغیرہم پر صدقہ کردیا جائے، سودی رقم کو (الف تاج) امور میں خرچ کرنا جائز نہیں۔ (ج) اور (د) کا حکم یہ ہے کہ سودی رقم سے مدرسہ کی تعمیر کرنا یا مدرسین کی تنخواہیں دینا جائز نہیں، البتہ اگر جیل یا جھوپڑپٹی والے بچے غریب ہوں تو سودی رقم سے ان کے تعلیم کی صورت یہ ہوسکتی ہے، ان کو سودی رقم دے کر مالک بنادیا جائے اور بعد میں بطور فیس ان سے وہ رقم وصول کرلی جائے۔ فیس وصول کرلینے کے بعد اس رقم سے تنخواہ دینا یا مدرسہ یا اسکول کی کسی اور ضرورت میں اس کا خرچ کرنا جائز ہوجائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند