• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 6240

    عنوان:

    مسجد میں عورتوں کو اجازت نہیں ہے۔ میرا پہلا سوا ل نمبر5852ہے۔ڈاکٹر ذاکر نائک نے سنن ابوداؤد کی ج:1باب نمبر 204حدیث نمبر 570جس کے راوی عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ ہیں اس کا حوالہ دیا ہے۔ یہی صرف ایک حدیث ہے جس میں عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد پر آپ عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہیں روک سکتے ہیں۔جب کہ صحیح مسلم ج:1باب 177حدیث نمبر 886میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی بندیوں کواللہ کی مسجد میں جانے سے مت روکو۔ آپ نے تفصیل پوچھا تھا۔ اتنا ڈاکٹر ذاکر نائک کی ویب سائٹ سے ملا۔ آپ کے گوش گزار ہے، اب آگے آپ جواب دیں گے ۔ اگر مسجد جانے کے لیے منع کیا ہے تو صرف ایک حدیث کے حوالہ سے آپ کیسے ثابت کریں گے؟ جب کہ مسجد میں جانے کے لیے چار سے پانچ حدیث کا حوالہ ڈاکٹر ذاکر نے دیا ہے۔

    سوال:

    مسجد میں عورتوں کو اجازت نہیں ہے۔ میرا پہلا سوا ل نمبر5852ہے۔ڈاکٹر ذاکر نائک نے سنن ابوداؤد کی ج:1باب نمبر 204حدیث نمبر 570جس کے راوی عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ ہیں اس کا حوالہ دیا ہے۔ یہی صرف ایک حدیث ہے جس میں عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد پر آپ عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہیں روک سکتے ہیں۔جب کہ صحیح مسلم ج:1باب 177حدیث نمبر 886میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی بندیوں کواللہ کی مسجد میں جانے سے مت روکو۔ آپ نے تفصیل پوچھا تھا۔ اتنا ڈاکٹر ذاکر نائک کی ویب سائٹ سے ملا۔ آپ کے گوش گزار ہے، اب آگے آپ جواب دیں گے ۔ اگر مسجد جانے کے لیے منع کیا ہے تو صرف ایک حدیث کے حوالہ سے آپ کیسے ثابت کریں گے؟ جب کہ مسجد میں جانے کے لیے چار سے پانچ حدیث کا حوالہ ڈاکٹر ذاکر نے دیا ہے۔

    جواب نمبر: 6240

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 752=752/ م

     

    عن أمّ سلمة رضي اللہ عنھا عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: ?خیر مساجد النساء قعر بیوتھن? (رواہ أحمد وبیہقي وکذا في کنز العمال) ترجمہ: حضرت ام سلمہ -رضی اللہ عنہا- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کی کوٹھریوں کا اندرونی مکان ہے۔

    (۲) عن أم حمید امرأة أبي حمید الساعدي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال لھا: قد علمتُ أنّکِ تحبّین الصلاة معي، وصلاتُکِ في بیتکِ خیر من صلاتِکِ في حجرتِکِ، وصلاتُکِ في حجرتکِ خیر من صلاتِکِ في دارکِ، وصلاتکِ في دارکِ خیر من صلاتکِ في مسجد قومکِ، وصلاتکِ في مسجد قومِکِ خیر من صلاتکِ في مسجدي (رواہ الإمام أحمد وابن حبان، کذا في کنز العمال) ترجمہ: ابوحمید ساعدی -رضی اللہ عنہ- کی بیوی ام حمید -رضی اللہ عنہا- فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: میں جانتا ہوں کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو، مگر تمہاری وہ نماز جو گھر کی اندرونی کوٹھری میں ہو، وہ بیرونی کمرہ کی نماز سے بہتر ہے، اور بیرونی کمرہ کی نماز، گھر کے صحن کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے، اور مسجد محلہ کی نماز میری مسجد کی نماز سے بہتر ہے۔

    (۳) وأوردہ الھیثمي في مجمع الزوائد وزاد: فأمرتْ فبُنِيَ لھا مسجدٌ في أقصی بیت في بیتھا وأظلَمِہ فکانت تُصلي فیہ حتی لقیتْ اللّٰہَ عز وجل، قال الہیثمي: رجالہ رجال الصحیح غیر عبد اللہ بن سوید الأنصاري ووثقہ ابن حبان۔ ترجمہ: اوراس حدیث کو ہیثمی، مجمع الزوائد میں لائے ہیں، اوراس میں اتنی زیادتی ہے کہ ام حمید -رضی اللہ عنہا- نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر اپنے گھروالوں گو حکم دیا، ان کے لیے ان کے گھر کی ایک اندرونی کوٹھری میں جو نہایت تاریکی میں تھی، نماز کی جگہ بنادی گئی، اور یہ اس میں نماز پڑھتی رہیں، یہاں تک کہ خدا سے جاملیں۔ حافظ ہیثمی نے کہا کہ اس روایت کے راوی صحیح کے راوی ہیں، سوائے عبداللہ بن سوید انصاری کے اور ابن حبان نے ان کو معتبر بتایا ہے۔

    (۴) عن عبد اللہ بن مسعود -رضی اللہ عنہا- عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاة المرأة في بیتھا أفضلُ من صلاتھا في حجرتھا، وصلاتھا في مِخدعھا أفضل من صلاتھا فی بیتھا۔ (أبوداوٴد شریف) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کی نماز کوٹھری میں بیرونی کمرہ کی نماز سے بہتر ہے۔ اور کوٹھری کے اندر کی نماز، کوٹھری کی نماز سے بہتر ہے۔

    (۵) وعنہ: ما صلت امرأة من صلاتہ أحب إلی اللہ من أشد مکان في بیتھا ظلمة (مجمع الزوائد) ترجمہ: اورابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت کی کوئی نماز، خدا کو اس نماز سے زیادہ محبوب نہیں، جو اس کی تاریک تر کوٹھری میں ہو۔

    (۶) عن أبي ہریرة -رضي اللہ عنہ- عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: لولا ما في البیوت من النساء والذریة، أقمت صلاة العشاء وأمرتُ فتیاني یحرقون ما في البیوت بالنار (رواہ أحمد، مشکاة) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے، تو میں نماز عشاء قائم کرتا، اور اپنے جوانوں کو حکم دیتا کہ گھروں میں آگ لگادیں۔

    (۷) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: لو أدرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بني اسرائیل۔ یعنی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حرکات کو دیکھتے جو آج کل کی عورتوں نے ایجاد کرلی ہیں تو ان کو مسجد میں جانے سے روک دیتے، جس طرح کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ (بخاری شریف)

    ان تمام حدیثوں سے صراحةً ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جماعتوں میں حاضر ہونا، محض رخصت واباحت کی بنا پر تھا، کسی تاکید یا فضیلت واستحباب کی بنا پر نہیں، اس رخصت واباحت کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشاد، ان کے لیے یہی تھا کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، اور اسی کی ترغیب دیتے تھے اور فضیلت بیان فرماتے تھے۔ حدیث نمبر (۶) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں کو جو جماعت عشاء میں حاضر نہ ہوتے تھے، آگ سے جلادینے کا ارادہ فرمایا مگر عورتوں، بچوں کا گھروں میں ہونا اس کی تکمیل سے مانع آیا، عورتوں کا اس حدیث میں ذکر فرمانا اس کی دلیل ہے کہ وہ جماعت میں حاضر ہونے کی مکلف نہ تھیں، اور جماعت ان کے ذمے موٴکد نہ تھی، ورنہ وہ بھی اسی جرم کی مجرم اوراسی سزا کی مستوجب ہوتیں۔ اور حدیث نمبر ۱،۲،۳،۴ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت کی کوٹھری کے اندر کی نماز، دالان کی نماز سے افضل او ردالان کی نماز، صحن کی نماز سے افضل اور صحن کی نماز محلہ کی نماز سے افضل ہے، پس اس میں کیا شبہ رہا کہ عورتوں کو جماعت میں اورمسجد نبوی میں حاضر ہونا کسی استحباب وفضیلت کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ محض مباح تھا۔ پس کس قدر افسوس ہے ان لوگوں کے حال پر جو عورتوں کو مسجد میں بلاتے اورجماعتوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں، اورغضب یہ کہ اسے سنت بتاتے ہیں اوراپنے اس فعل کو احیائے سنت سمجھتے ہیں۔ اگر عورتوں کے لیے جماعتوں میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد کی نماز سے مسجد محلہ کی نماز کو اور مسجد محلہ کی نماز سے گھر کی نماز کو افضل کیوں فرماتے۔ کیوں کہ اس صورت میں گھر میں تنہا نماز پڑھنا عورتوں کے لیے ترک سنت ہوتا تو کیا ترک سنت میں ثواب زیادہ تھا، اور سنت پر عمل کرنے میں ثواب کم؟ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی ترغیب دے کر گویا ترک سنت کی ترغیب دیتے تھے؟ شاید یہ لوگ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ سے زیادہ بزرگ اور اپنی مسجدوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد شریف سے افضل سمجھتے ہیں۔ جن حدیثوں میں خاوندوں کو عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کی ممانعت ہے، ان حدیثوں سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کو مسجد میں جانا، مستحب یا سنت موٴکدہ ہے، عورتوں کو چونکہ آپ کے زمانہ میں مسجدوں میں جانا مباح تھا، تو اس اباحت ورخصت سے فائدہ اٹھانے کا حق انھیں حاصل تھا؛ اس لیے مردوں کو ان کے روکنے سے منع فرمایا کہ ان کا یہ حق زائل نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس وقت عورتوں کے مسجد میں آنے کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ عورتوں کو تعلیم کی بہت حاجت تھی، اور اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ مسجد میں حاضر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال نماز کو دیکھیں اور سیکھیں۔ کوئی بات پوچھنی ہو تو خود پوچھ لیں۔ تیسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک زمانہ فتنہ وفساد سے مامون تھا۔ وغیرہ وغیرہ

    پس ان حدیثوں سے عورتوں کے لیے جماعتوں کی حاضری کا سنت یا مستحب ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند