• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 176023

    عنوان: صرف عورتوں کی محفل میں اونچی ایڑی کی چپل پہننے کا حکم

    سوال: 1) ہمیں یہ تو علم ہے کہ غیر محرم کے سامنے یا مردوں کی محفل، راہ چلتے اونچی ایڑی کی جوتی پہننا حرام ہے لیکن کیا ہم عورتوں کی محفل میں بھی نہیں پہن سکتیں؟ جہاں کوئی غیر محرم نہ ہو یا صرف لڑکیوں کا ادارہ ہو 1) ہمارے ہاں رواج ہے کہ جب استاد کلاس میں داخل ہوتا ہے تو سٹوڈنٹس کھڑے ہوکر ان کو سلام کرتے ہیں تو کیا کھڑے ہونا جائز ہے ؟ نیز ایک استانی جو عیسائی تو سٹوڈنٹس کا مذکورہ طریقے سے سلام کرنا جائز ہے کیونکہ یہ ان کی عادت بن چکی ہے اور اگر نہیں تو پھر کیا کہنا چاہئے ؟

    جواب نمبر: 176023

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:423-413/N=7/1441

    (۱): عورت یا لڑکی، جب عورتوں کی محفل میں جائے گی تو گھر سے نکل کر ہی جائے گی اور راستہ میں یا گاڑی سے اترتے وقت آس پاس مرد بھی ہوسکتے ہیں، جن کی اس طرح کی ایڑیوں والے جوتیوں پر نظر پڑنا کچھ مشکل نہیں، نیز اونچی ایڑی والی جوتیاں محض فیشنی ہیں، اُن میں کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں ہے ؛ اس لیے بہر صورت اونچی ایڑیوں والی جوتیوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

    (۲): بیٹھے ہوئے ہی سلام کرنا کافی ہے؛ کیوں کہ کسی کی آمد پر کھڑا ہونا عجمی طریقہ ہے؛ لہٰذا آپ کے یہاں کا جو رواج ہے، اُسے ختم کرنا چاہیے۔

    (۳، ۴): کسی عیسائی کو اسلامی سلام(یعنی: السلام علیکم) کرنا درست نہیں؛ کیوں کہ یہ سلام مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے، اس میں دنیا وآخرت دونوں جہاں کی سلامتی کی دعا ہے ۔ اور اگر مجبوری ہو تو یہ کہہ دے السلام علی من اتبع الھدی یا صرف السلام کہہ دے۔

    ویسلم المسلم علی أھل الذمة لو لہ حاجة إلیہ وإلا کرہ ھو الصحیح،……وأکثر المتون بلفظ: ”یسلم“فأولتھاھکذا، ولکن بعض نسخ المتن : ”ولا یسلم“ وھو الأحسن الأسلم، فافھم (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ،۔ فصل فی البیع وغیرہ، ۹: ۵۹۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”ویسلم المسلم علی أھل الذمة“:…… فی الشرعة: إذا سلم علی أھل الذمة فلیقل: السلام علی من اتبع الھدی، وکذلک یکتب فی الکتاب إلیھم، وفی التاتر خانیة: قال محمد:إذا کتبت إلی یھودي أو نصراني في حاجة فاکتب: السلام علی من اتبع الھدیاھ۔ قولہ: ”لو لہ حاجة إلیہ“:أي: إلی الذمي المفہوم من المقام، قال فی التاترخانیة: لأن النھي عن السلام لتوقیرہ ولا توقیر إذا کان السلام لحاجة۔……۔قولہ:”وھو الأحسن“:لأن الحکم الأصلي المنع والجواز لحاجة عارض، وقولہ:”الأسلم“:لعل وجھہ أنہ إذا لم یسلم مطلقاً لایقع في محذوربخلاف ما إذا سلم مطلقاً(رد المحتار) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند