• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 165488

    عنوان: عورت کا ہسپتال میں نرس کی حیثیت سے کام کرنا

    سوال: میرا سوال اس طرح ہے کہ میری بیوی سرکاری نوکری کر رہی ہے اور وہ ہیلتھ محکمہ میں بطورا سٹاف نرس کام کر رہی ہے ۔کیا شرعی طور اُ س کو نوکری کرنے کی گنجائش یا اجازت ہے کہ نہیں ؟براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 165488

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:44-37/N=2/1440

    ہسپتال میں عام طور پر نرسوں کے لیے شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ ملازمت ممکن نہیں ہوتی اور یہ ملازمتیں عام طور پر فتنے کا باعث ہوجاتی ہیں؛ اس لیے اگر آپ کی بیوی کسی ہیلتھ محکمہ (ہسپتال) میں شرعی پردہ وغیرہ کی رعایت کے ساتھ ملازمت نہیں کررہی ہے تو اس کی یہ ملازمت جائز نہیں ہے اور آپ کا بیوی کو ایسی ملازمت کی اجازت دینا بھی درست نہیں ہے۔

    قال اللّٰہ تعالیٰ: ﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ﴾(سورة الأحزاب، رقم الآیة: ۵۹)، قال أبو بکر: في ہذہ الآیة دلالة علی أن المرأة الشابة مأمورة بسترة وجہھا عن الأجنبیین (أحکام القرآن للجصاص ۳:۳۷۲)، وقال اللّٰہ تعالی أیضاً: ﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْاُوْلٰی﴾(سورة الأحزاب، رقم الآیة: ۳۳)، قال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس : أمر اللّٰہ نساء الموٴمنین إذا أخرجن من بیوتہن في حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق رؤوسہن بالجلابیب، ویبدین عینًا واحدة (تفسیر ابن کثیر، ص ۱۰۸۳)، عن ابن مسعودعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: المرأة عورة فإذا خرجت استشرفہا الشیطان رواہ الترمذي (مشکاة المصابیح، کتاب النکاح،باب النظر إلی المخطوبة، الفصل الثاني،ص: ۲۶۹ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، قولہ ”استشرفہا الشیطان“ أي زینہا في نظر الرجال والمعنی: أن المرأة یستقبح بروزہا وظہورہا فإذا خرجت أمعن النظر إلیہا لیغویہا بغیرہا، ویغوي غیرہا، بہا لیوقعہا، أو أحدہما في الفتنة (تحفة الأحوذي ۴/۲۸۳المکتبة الأشرفیة دیوبند)، قال الإمام الشاہ ولي اللّٰہ : اعلم أنہ لما کان الرجال یہیّجہم النظر إلی النساء علی عشقہن والتوجہ بہن، ویفعل بالنساء مثل ذٰلک، وکان کثیرًا ما یکون ذٰلک سببًا لأن یبتغي قضاء الشہوة منہن علی غیر السنة الراشدة، کاتباع من ہي في عصمة غیرہ، أو بلا نکاح، أو غیر اعتبار کفاء ة، والذي شوہد من ہٰذا الباب یغني عما سطر في الدفاتر، اقتضت الحکمة أن یسد ہٰذا الباب(حجة اللّٰہ البالغة، ۲:۳۲۸، ط: مکتبة حجاز دیوبند)، وتمنع المرأة الشابة من کشف الوجہ بین الرجال؛ لا لأنہ عورة؛ بل لخوف الفتنة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ۲:۷۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولایأٴذن بالخروج إلی المجلس الذی یجتمع فیہ الرجال والنساء وفیہ المنکرات الخ فلا یحضر ولا یأذن لھا فإن فعل یتوب للہ تعالی (الفتاوی البزازیة علی ہامش الفتاویٰ الھندیة ۴:۱۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند