• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 159455

    عنوان: پردے كی حدود كیا ہیں؟

    سوال: عورتوں کو پردہ کتنا ہے؟ ہمارے یہاں عورتیں پورے نقاب میں رہتی ہیں لیکن کچھ عورتیں چہرہ کھول کر رہتی ہیں۔ جب ان کے گھر والوں سے کچھ کہو تو وہ عرب ملک کا حوالہ دیتے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ: (۱) کیا عورت کا ایسے پردہ کرنا جائز ہے؟ (۲) اگر نہیں! تو عرب ملک میں کیسے جائز ہے؟ (۳) اور اگر جائز نہیں! تو قرآن وحدیث کے حوالے سے بتائیں؟ کیونکہ وہ لوگ قرآن و حدیث کا حوالہ مانگتے ہیں۔ (۴) صحابہ کے دَور میں پردے کا کیا نظم تھا؟ تفصیلی وضاحت کی درخواست ہے۔

    جواب نمبر: 159455

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:695-735/M=7/1439

    (۱) تا (۴) عورتوں کے لیے پردہ (حجاب) تین مرحلوں میں ہے:

    پہلا مرحلہ: اللہ سے حجاب کا ہے یعنی جب عورت نماز کے لیے کھڑی ہو تو چہرہ، دونوں ہاتھ پہنچوں تک اور دونوں قدم ٹخنے سے نیچے تک چھوڑکر (کہ یہ تین اعضاء نماز کے حجاب میں داخل نہیں) بقیہ پورا بدن چھپاکر نماز پڑھنا ضروری ہے۔

     دوسرا مرحلہ: محارم سے حجاب کا ہے یعنی جن لوگوں سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے، ان کے سامنے عورت اپنا چہرہ سر، گردن سینہ، سینہ سے اوپر کا حصہ، دونوں ہاتھ، دونوں پنڈلیوں کے علاوہ (کہ یہ اعضاء عورت محارم کے سامنے کھول سکتی ہے) بقیہ اعضاء بدن کا چھپانا لازم ہے۔

    تیسرا مرحلہ: حجاب کا اجنبیوں سے ہے اور وہ پورے بدن کا حجاب ہے، اس میں ہاتھ، پاوٴں، چہرہ سر وغیرہ کا کوئی استثناء نہیں، سبھی چیزوں کا پردہ ہے، حتی کہ آواز کا بھی پردہ ہے، حجاب کا جو تیسرا مرحلہ ہے اجانب اور غیرمحارم سے پردے کا اس میں عورتیں بڑی بے راہ روی میں مبتلا ہیں، چہرے کے پردہ کو ضروری نہیں سمجھتی ہیں، حالانکہ چہرے کو چھپانا ہی سب سے زیادہ ضروری ہے کیوں کہ چہرہ مجمع حسن ہونے کی وجہ سے فتنے کا امکان سب سے زیادہ رہتا ہے۔ عرب ملک میں اگر عورتیں، اجنبیوں سے چہرے کا پردہ نہیں کرتی ہیں تو اُن کا یہ فعل شرعاً ناجائز اور غلط ہے اور ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں کا چہرہ کھول کر چلنا یہ جہالت اور اندھی تقلید ہے، ناجائز امور میں کسی کی تقلید ہرگز جائز نہیں، قرآن وحدیث میں پردے کا حکم مذکور ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ”وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ“ اور ایک دوسری آیت میں ہے: ”یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ“ (سورہٴ احزاب) اور حدیث میں ہے: المرأة عورة إذا خرجت من بیتہا استشرفہا الشیطان․ صحابہٴ کرام کے دور میں بھی پردے کا خوب اہتمام تھا۔ سن ۳یا ۴ہجری میں باقاعدہ پردے کا حکم نازل ہوگیا تھا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند