• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 159261

    عنوان: قریبی رشتہ داروں سے پردہ کا حکم

    سوال: میرے پہلے سوال میں جو میں نے مولانا خالد سیف اللہ صاحب کا جواز کے متعلق سوال کیا تھا اس کا حوالہ ہے، مولانا کی کتاب: حلال اور حرام، صفحہ نمبر: 188 ۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ شہوت کے بغیر نامحرم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں ․․․․․ اوکے (ٹھیک ہے) وہ صاحب اپنے رشتہ دار، عزیز و اقارب کی نامحرم مستورات سے پردہ نہیں کرتے، اور پردہ نہ کرنے کا جواز بتاتے ہیں۔ جواز ہے کہ مولانا خالد سیف اللہ صاحب کی کتاب میں کتاب حلال و حرام صفحہ نمبر ۱۸۸/ ۔ لیکن میرا اشکال ہے کہ آپ انسان ہیں فرشتے نہیں۔ انسان میں شہوت کا انکار ہی نہیں۔ شہوت کا وقت اور حالات کا کیا خلاصہ ہوگا؟ آپ بشر ہیں اور اگر آپ اللہ اور اس کے رسول کے مطیع و فرمانبردار اگر ہیں تو اسلام نے جو پابندیاں اور حدبندی لگائی ہے اس کو اپنائیں۔ نہ کہ اپنی مرضی اور سہولت اور فطری ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کے اصول کے خلاف زندگی گذاریں، کیا میں صحیح ہوں؟

    جواب نمبر: 159261

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:653-163T/N=1/1440

    شریعت نے پردے کے احکام میں عورت کے حق میں مردوں کی صرف تین قسمیں کی ہیں؛ ایک شوہر، عورت کا اپنے شوہر سے کچھ پردہ نہیں۔ دوسرے: محارم، یعنی: وہ مردجن سے عورت کا کبھی بھی نکاح جائز نہیں، جیسے: باپ، بیٹا، بھائی، ماموں وغیرہ، ان سے عورت کے چہرہ، سر، بازو اور پنڈلی وغیرہ کا پردہ نہیں ہے، بہ شرطیکہ مرد یا عورت کسی میں شہوت کا اندیشہ نہ ہو۔ تیسرے: اجنبی مرد خواہ وہ رشتہ دار ہو یا رشتہ دار نہ ہو، یعنی: وہ مرد جن سے عورت کا کبھی بھی نکاح جائز ہو، اس طرح کے مردوں سے عورت کے لیے اپنے چہرہ اور ہتھیلیوں کو علاوہ کو پورے جسم کا ستر ہے اور اگر شہوت کا اندیشہ یا شک ہو تو چہرہ کا بھی پردہ ہوگا۔ اور فقہا نے فرمایا کہ ہمارے زمانہ میں جوان (یا ادھیڑ عمر) عورت کا چہرہ دیکھنا بھی جائز نہیں ہے (در مختار وشامی، ۹: ۵۲۶- ۵۳۲، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)۔اور ہمارے اکابر کی تحقیق یہ ہے کہ خوف فتنہ اور شرعی مصالح کی بنا پر چہرہ کا پردہ بھی واجب ہے (امداد الفتاوی، ۴: ۱۸۰، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی)؛ اس لیے آپ کی بات صحیح ہے اور آپ کے ساتھی کی بات صحیح نہیں۔

    اور جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ نے اجنبی اور غیر محرم رشتہ داروں میں پردے کے باب میں جو فرق کیا ہے، وہ صحیح نہیں، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دیور کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موت قرار دیا (مشکوة شریف ص ۲۶۸، بحوالہ: صحیحین، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، اس کا مطلب یہ ہے کہ سسرالی یا غیر سسرالی رشتہ داروں میں جو اجنبی ہوں، ان سے سخت پردے کی ضرورت ہے اور لوگ عام طور پر قریبی رشتہ داروں میں ہی پردے کے باب میں بے احتیاطی کرتے ہیں۔اور مولانا نے فتاوی بزازیہ کا جو حوالہ پیش کیا ہے، وہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ عبارت میں ذی الرحم سے محرم رشتہ دار مراد ہے، مطلق رشتہ دار مراد نہیں ہے جیسا کہ دیگر تمام فقہاء کی تصریحات کا تقاضہ ہے۔ اور کلام میں کبھی لفظ عام ہوتا ہے اور قرائن کی روشنی میں اس کی مراد خاص ہوتی ہے۔

    اس لیے پردے کے باب میں اجنبی مردوں میں رشتہ اور غیر رشتہ دار کا کوئی فرق نہیں ہے؛ بلکہ عام حالات میں رشتہ داروں میں اجنبی مردوں سے بہ طور خاص پردے کا اہتمام چاہیے؛ تاکہ فتنوں کا انسداد رہے؛

    البتہ اگر جوائنٹ فیملی میں مالی تنگی کی وجہ سے شرعی پردہ کے لیے الگ الگ مکانات کا نظم سخت مشکل ودشوار ہو اور گھر میں بہوئیں آچکی ہوں تو ایسی صورت میں بوجہ مجبوری درج ذیل چند باتوں کی رعایت کے ساتھ بھابھی اور دیور کے مسئلہ میں پردے کے سلسلہ میں کچھ تخفیف ہوسکتی ہے:

     ۱:۔بھابھی اور دیور بے تکلف ایک دوسرے کے سامنے نہ آئیں۔ ۲:۔نیز بلا ضرورت ایک دوسرے سے کوئی بات چیت نہ کریں۔ ۳:۔ایک دوسرے کے ساتھ خلوت و تنہائی سے سخت پرہیز کیا جائے۔ ۴:۔دیور جب گھر آئے تو اطلاع کیے بغیر نہ آئیں۔ ۵:۔بھابھی جب کمرے سے باہر صحن وغیرہ میں آنا چاہے تو موٹی چادر یا دو پٹہ سے بال وغیرہ ڈھک کر نکلے، گھونگٹ کے ساتھ کچھ چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی رہیں تو گنجائش ہے (فتاوی دار العلوم دیوبند ۱۶: ۱۹۹-۲۰۱، سوال: ۳۷۹- ۴۳۸۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، احسن الفتاوی ۹: ۳۷، مطبوعہ: ایچ، ایم، سعید کمپنی، کراچی، آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۸: ۸۹، ۹۰، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند بحوالہ: تعلیم الطالب، موٴلفہ: حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ ص ۵)؛ لیکن دیگر رشتہ داروں میں تخفیف نہ ہوگی، ان سے بہر حال مکمل پردہ کرنا ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند