• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 155128

    عنوان: پردہ کی شرعی حد کیا ہے؟ كیا آواز اور نام کا بھی پردہ ہے؟

    سوال: حضرت، مجھے شرعی پردہ کے بارے میں پوچھنا ہے، (۱)پردہ کی شرعی حد کیا ہے؟ آواز اور نام کا بھی پردہ ہے؟ اگر ہاں! (۲)پھر قریبی رشتہ داروں سے کس طرح کیا جائے؟ مہربانی کرکے بتائیں۔ (۳) نقاب جس میں آنکھیں دکھ رہی ہوں اور ہتھیلی اور پیر دکھ رہا ہو پہننا، اس بارے میں شریعت میں کیا حکم ہے؟ کیا دستانہ اور موزے پہننا لازمی ہے؟ اور جو نامحرم گھر میں رہتے ہوں جیسے دیور یا کوئی چچہرا بھائی ان کے سامنے مجبوری میں جانا پڑے تو ہتھیلی اور پیر کو کیسے چھپایا جائے؟ (۴) گھر میں رہنے والے غیر محرم سے بات کرنے کے بارے میں شریعت میں کیا حکم ہے؟ (۵) گھر میں ہی رہنے والے نامحرم کے کپڑے دھونا، اس بارے میں شریعت میں کیا حکم ہے؟ (۶) اورمجھے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ میرے چچا زاد بھائی ور میرے ماموں زاد بھائی جن سے میری بڑی بہنوں کی شادی ہوئی ہے جو بچپن سے ہم بھائی بہنوں کی طرح ساتھ رہے ہیں، میں ان سے پردہ تو کر رہی ہوں مگر مجبوری میں بات کرنا پڑتا ہے، جب کچھ سوال کریں تو جواب دینا پڑتا ہے، اور ان کی طرف غلطی سے نظر اٹھ جاتی ہے تو فوراً ہٹا لیتی ہوں، کسی طرح بچ سکتی ہوں؟ اور مکمل شرعی پردہ کر سکتی ہوں؟ براہ کرم شریعت کی روشنی میں مشورہ عنایت فرمائیں۔ اور دعا بھی فرمائیں کہ اللہ مکمل شرعی پردے کی توفیق دے۔

    جواب نمبر: 155128

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:47-10T/sd=2/1439

    (۱تا ۶) صحیح قول کے مطابق عورت کی آواز حجاب میں داخل نہیں ہے ، لیکن بلاضرورت اجنبیہ عورت کے کلام کو سننا اوراس سے بات کرنا ممنوع وناجائز ہے ،اگر بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پردے میں رہ کر ،لب ولہجہ میں سختی ودرشتی کے ساتھ بات کرناچاہیے ، نیز عورتوں کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی آوازبلاضرورت کسی اجنبی مرد کو سنائیں اور پردے کے حکم میں قریبی غیر محرم رشتہ دار بھی داخل ہیں،بلکہ غیرمحرم قریبی رشتے دار مثلاً بھابی وغیرہ کے سلسلے میں حدیث میں صراحتاً پردے کا تاکیدی حکم وارد ہواہے کہ ان سے موت کی طرح بچو؛ لہٰذااگر اللہ نے وسعت دے رکھی ہے تواصل شریعت کا منشاء یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے اہل وعیال کے ساتھ الگ مکان میں رہے ، لیکن اگر کسی وجہ سے ایک ہی مکان میں چند ایسے قریبی غیر محرم لوگ رہتے ہیں جن کا آپس میں شرعاً پردہ کرنا ضروری ہے ،تو فقہاء نے اس وقت صرف اتنی گنجائش دی ہے کہ مثل اجنبیہ عورت کے ہر وقت گھر میں نقاب اوڑھ کر بیٹھنا تو لازم نہیں؛ البتہ خلوت وتنہائی، باہم بے تکلفی سے باتیں کرنے اور قصداً چہرہ کھول کر سامنے آنے سے احتیاط ضروری ہے ، اگر سامنے آنے کی ضرورت پڑے تو کپڑے سے چہرہ ڈھانک لیاجائے ۔ عن عقبة بن عامرأن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ایاکم والدخول علی النساء، فقال رجل من الأنصار یارسول الله أفرأیت الحموقال: الحمو الموت (البخاری: باب لایخلون رجل بامرأة الی ذومحرم،رقم:۵۲۳۲) وزادابن وہب فی روایة عن مسلم سمعتُ اللیثَ یقول: الحمرأخوالزوج وماأشبہ من أقارب الزوج ابن العم ونحوہ وقال الترمذی:یقال: وہو أخوالزوج ، کرہ لہ أن یخلوبہا قال: ومعنی الحدیث علی نحوماروی: لا یخلون رجل بامرأة فان ثالثہا الشیطان(الترمذی ، رقم: ۱۱۷۱) وفی مرقاةالمفاتیح:قولہ “ایاکم والدخول علی النساء” أی غیر المحرمات علی طریق التخلیة أوعلی وجہ التکشف، (المرقاة:کتاب النکاح، باب النظر الی المخطوبة وبیان العورات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) حضرت تھانوینے قریبی غیر محرم اعزہ سے پردے کے سلسلے میں بہت ہی محتاط الفاظ میں ایک جامع حکم بیان فرمایاتھا، جس کو یہاں نقل کرنامناسب ہے ، “جورشتہ دار محرم نہیں مثلاً: خالہ زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد، بھائی یابہنوئی یا دیور وغیرہ، جوان عورتوں کو ان کے روبرو آنا اور بے تکلف باتیں کرنا ہرگز نہیں چاہیے ، اگر مکان کی تنگی یاہر وقت آمد ورفت کی وجہ سے گہرا پردہ نہ ہوسکے تو سرسے پاؤں تک کسی میلی چادرسے ڈھانک کر شرم ولحاظ سے بہ ضرورت روبرو آجائے اور کلائی ،بازو، سر کے بال اورپنڈلی ان سب کاظاہر کرناحرام ہے ، اسی طرح ان لوگوں کے روبرو عطر لگاکر عورت کاآنا جائز نہیں اور نہ بجتاہوا زیور پہنے ۔(تعلیم الطالب:ص:۸)۔

    عن أبی ہریرةقال خرج رسول الله صلی الله علیہ وسلم ذات یوم أولیلة- فأتی رجلاً من الأنصار فاذاہو لیس فی بیتہ فلما رأتہ المرأة قالت: مرحبًا وأہلاً فقال لہا رسول الله صلی الله علیہ وسلم: أین فلان؟ قالت: ذہب لیستعذب لنا من الماء۔ قال النووی: فیہ جواز سماع کلام الأجنبیة ومراجعتہا الکلام للحاجة۔ (النووی علی مسلم: کتاب الأشربة ، باب جوازاستتباعہ غیرہ الی دار من یثق برضاہ بذٰلک۔ (شرح النوی علی مسلم:۲۱۰/۱۳،ط: داراحیاء التراث العربی) وفی الدرالمختار: وللحرة جمیعُ بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد وصوتہا علی الراجح وقال الشامی: قولہ :“علی الراجح” عبارة البحر عن الحلیة أنہ الأشبہ وفی النہر وہو الذی ینبغی علیہ اعتمادہ الی قولہ: فانا نجیز الکلامَ مع النساء للأجانب ومحاورتہن عند الحاجة الی ذٰلک، ولا نجیزلہُنَّ رفعَ أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا ؛ لما فی ذٰلک من استمالة الرجال الیہن وتحریک الشہوات منہم، ومن ہٰذا لم یجز أن توٴذن المرأة۔۱ھ (الدر مع الرد:’۷۸-۷۹۔ط: زکریا، دیوبند)

     برقعہ پہننے کے سلسلے میں اسلاف سے بہت سے طریقے مروی ہیں،جن میں صراحتاً ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عورت چہرے کو چھپائے اور صرف ایک یادوآنکھیں کھلی ر کھے وعن محمدبن سیرین قال: سألتُ عبیدة السلمانی عن ہٰذہ الآیة: “یدنین علیہن من جلابیہن، فرفع ملحفة کانت علیہ، فتقنع بہا وغطی رأسہ کلہ حتی بلغ الحاجیین وغطی وجہہ وأخرج عینہ الیسریٰ من شق وجہہ الأیسر وقال ابن عباسوقتادةتلوی الجلباب فوق الجبین وتشدہ ثم تعطفہ علی الأنف وان ظہرت عیناہا، لکن تستر الصدر ومعظم الوجہ (روح المعانی: ۲۶۴/۱۱،ط: مکتبہ امدادیہ، پاکستان) لہٰذا اس طرح نقاب اوڑھنا کہ دونوں آنکھیں کھلی رہیں شرعاً درست ہے ؛لیکن عورتوں کے لیے بھی مردوں کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے ، ان کے لیے ضروری ہے کہ نگاہیں نیچی رکھ کرچلیں اور اگر آنکھوں کے پردے کی بھی کوئی ایسی صورت ہو،جس سے تنگی وحرج نہ ہوتو یہ سب سے اعلیٰ وافضل ہے۔

     قال اللّٰہ تعالی: وقل للموٴمنات یغضضن من أبصارہن۔ قال ابن کثیر:ولہٰذا ذہب کثیر من العلماء الی أنہ لایجوز للمرأة النظر الی الرجال الأجانب بشہوة ولا بغیر شہوة أصلاً۔ الخ۔ (احکام القرآن للمفتی شفیع:۴۲۲/۳) اور دستانے پہننا لازم نہیں ہے ، اسی طرح ٹخنوں تک دونوں پیروں کو چھپانا بھی ضروری نہیں ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند