• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 153747

    عنوان: كیا عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اپنی تنخواہ میں سے کچھ رقم اپنے ماں باپ یا کسی اور کو دے سکتی ہے ؟

    سوال: شرعاً عورت کے نان نفقہ کا ذمہ دار شادی سے پہلے باپ اور شادی کے بعد خاوندکی ہے ۔ اگر عورت خا وند کی اجازت سے جائز ملازمت (ٹیچر )کرتی ہے ۔ کیا یہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اپنی تنخواہ میں سے کچھ رقم اپنے ماں باپ یا کسی اور کو دے سکتی ہے ؟ اور اگر خاوند ملازمت کے حق میں نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا ملا ز مت اس عورت کیلئے جائز ہے ؟ (۲) نیز شادی کے وقت ایسی شرائط رکھنا کہ میں شادی کے بعد اپنی ملازمت نہیں چھوڑ وں گی اگرچہ خاوند منع کرے یہ جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 153747

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1324-1436/B=1/1439

    (۱) اگر بیوی شوہر کی اجازت سے جائز ملازمت مکمل پردے کے ساتھ اور غیرمحرموں سے اختلاط کے بغیر کرتی ہے تو اس ملازمت سے ملنے والی تنخواہ پر صرف بیوی کی ملکیت ہوگی، شوہر اس کا مالک نہیں ہوگا، اور شرعاً ہرانسان اپنی ملک میں تصرف کرنے کا مُجاز ہے، اس لیے بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے والدین یا دوسروں کو بطور ہدیہ یا صدقہ اپنی تنخواہ کی رقم دے سکتی ہے، اور اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر ملازمت کرے چاہے ملازمت جائز ہو اور تمام شرائط موجود ہوں تو وہ شوہر کی نافرمانی کی وجہ سے گناہ گار ہوگی، اس لیے کہ عورتوں کو معاشی مسائل کے لیے ملازمت وغیرہ کی اجازت شرعاً سخت مجبوری کے تحت ہے اور جب شوہر بیوی کی ملازمت سے راضی نہ ہو اور خود اس کے حقوق ادا کرنے کے لیے تیار ہو تو بیوی کا ملازمت کرنا صحیح نہیں ہے؛ لیکن شوہر کی ا جازت کے بغیر اگر کوئی ملازمت کرلے تو اس پر ملنے والی تنخواہ حرام نہیں ہوگی اور وہ بھی بیوی کی مملوک ہوگی۔

    (۲) بوقت نکاح اس طرح کی شرط لگانا اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں، اس لیے کہ اسلام میں عورتوں کو باپردہ گھر میں ہی رہنے کا حکم ہے، کاروبار ملازمت وغیرہ مردوں کا کام ہے اسی وجہ سے مردوں پر عورتوں کا نان ونفقہ سکنی واجب ہے، لہٰذا بوقت نکاح عورتوں کو ایسی شرط نہیں لگانی چاہیے اور نہ مردوں کو ایسی شرط قبول کرنی چاہیے اگر وہ اس طرح کی شرط قبول کریں تو رعایت کا معاملہ کرنا چاہیے، وفي الرد: بل لہ أن یمنعہا من الأعمال کلہا المقتضیة لکسب لأنہا مستغنیة عنہ لوجوب کفایتہا علیہ․ (۵/۳۲۵، زکریا) مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: ”چند اہم عصری مسائل: ۱/ ۳۱۳، ط: دارالعلوم دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند