معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 153509
جواب نمبر: 153509
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1259-1215/H=11/1438
مذکورہ فی السوال سیر وتفریح گاہوں میں تو مردوں کو بھی اپنی حفاظت دشوار ہوجاتی ہے پس ان کو بھی اجتناب چاہیے مسلمان بہن بیٹیوں کو تو مزید سخت احتراز کی ضرورت ہے جہاں جہاں بوقتِ حاجت جانے کی اجازت ہے اس کے متعلق یہ ہدایت ہے : یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ الخ (سورة الاحزاب، پ۲۲) یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اپنی ازواجِ مطہرات اور بناتِ طاہرات اور مسلمانوں کی بیبیوں سے کہہ دیجیے کہ سر سے نیچے ڈال لیا کریں اپنے چہروں تھوڑی سی اپنی چادروں کو تاکہ پہچان ہوجایا کرے پس وہ آزار وتکلیف نہ دی جائیں گی۔(شریر قسم کے لوگوں سے حفاظت ہوجائے گی) احادیث مبارکہ میں بھی پردہٴ شرعی کی سخت تاکید ہے جیسا کہ آپ کو معلوم ہی ہے تو ایسی صورت میں محض طبیعت کو خوش کرنے کی خاطر مذکور فی السوال نوعیت کے سیر وتفریح کے مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوسکتی، البتہ ان کی طبیعت کو خوش کرنے کے لیے شوہر اور ماں باپ وغیرہ خوش خلقی، نرمی شفقت اور حسنِ اخلاق کا اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا برتاوٴ رکھیں گے تو ان کے حق میں یہی ان شاء اللہ نہ صرف یہ کہ کافی ہوجائے گا بلکہ موجودہ تفریح گاہوں کے مقابلہ میں زیادہ خوش کن ثابت ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند