• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 153373

    عنوان: میری اہلیہ الگ پورشن کا مطالبہ کررہی ہے . کیا اسکا یہ مطالبہ درست ہے اور اس کی تکمیل مجھ پر لازم ہے ؟

    سوال: شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی گھریلو اختلافات شروع ہوگئے ، میری اہلیہ، والدہ و بہن وغیرہ کے اور اب 4 سال ہوگئے ہیں کہ مسائل مزید گھمبیر ہوتے جارہے ہیں، اجمالی تفصیل ذیل میں مذکور ہے : (۱) ہمارا گھرانا مذہبی ہے ، گھر میں شرعی پردے کا رواج ہے ، گھر میں موجود غیر شادی شدہ بہن، اہلیہ اور ایک بھابھی عالمہ ہیں جبکہ دوسری بھابھی نے دراساتِ دینیہ کورس کیا ہوا ہے ۔ (۲) مشترکہ نظام کے تحت ہم رہتے تھے ۔ (۳) شروع میں کام کاج کم یا زیادہ کرنے پر اختلافات ہوئے اور پھر بات بات پر انکی لڑائی ہونے لگی، کئی بار اہلیہ و والدہ کی اور کئی بار اہلیہ و بہن کی شدید تکرار ہوچکی ہے جس کے بعد اہلیہ کی طرف سے میرے سمجھانے کے باوجود بھی میرے ماں باپ کی خدمت میں بتدریج کمی آنے لگ گئی اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ باقی دو بڑی بھابھیاں ہماری کزن ہیں جبکہ میری شادی خاندان سے باہر طے ہوئی۔ (۴) انہی روز روز کی لڑائیوں کی وجہ سے اہلیہ چڑچڑے پن کا شکار ہوگئی اور ایک دو بار میری والدہ اور والد صاحب سے بھی بدتمیزی کی حد تک تکرار کر بیٹھی۔ (۵) والد صاحب نے حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارا صرف کچن الگ کردیا اور کچھ رقم بطور کرایہ مقرر کردی مجھ پر مگر کام اب بھی ایک ہی مشترکہ کچن میں ہوتا ہے بس کھانا پینا ہمارا الگ ہے جس سے دونوں طرف کی خواتین کو جب مہمان آتے ہیں تو مسائل کا سامنا ہے ۔ (۶) میری بہن بنات مدرسے میں پڑھانے جاتی ہے مگر جب اہلیہ نے پڑھانے جانے کی اجازت طلب کی تو والد صاحب نے منع کردیا۔ (۷) اور گزشتہ دنوں کچھ ایسا ہوا کہ اب جب میرے گھر والے کہیں رشتے داروں کے ہاں جاتے ہیں تو میری اہلیہ کو نہیں لیکر جاتے . کہتے ہیں اسے میکے لے جاؤ اسکا تعلق ہمارے ساتھ اچھا نہیں تو ہمارے رشتے داروں کے ہاں بھی یہ پھر نہیں جائے گی۔ (۸) اب میری اہلیہ صرف میکے جاتی ہے یا پھر گھر پر ہوتی ہے اور کہیں آنا جانا نہیں جس سے وہ مزید تنہائی کا شکار ہوگئی ہے ۔ (۹) اس دوران میں نے والد صاحب سے بات کی کہ یہ درست اقدام نہیں کہ یہ سب میرے بھی رشتے دار ہیں اور مجھ سے گلہ کررہے ہیں کہ اپنی اہلیہ کو کیوں نہیں لاتے ؟ (کیونکہ ان رشتے داروں کو اندرونی صورتحال کا علم نہیں تھا) اور اگر میری والدہ اسے کہیں اپنے ساتھ نہیں لیکر جارہی تو میں پھر خود اسے اکیلے لیکر جاؤنگا رشتے داروں کے ہاں۔ تو اس پر والد صاحب نے جواب دیا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اسکا براہِ راست اثر ہمارے تعلق پر پڑے گا اور میں تم سے ناراض ہوجاؤں گا۔ (۱۰) اب اس بات کے بعد سے میری اہلیہ مجھ سے الگ پورشن کا مطالبہ کررہی ہے کہ تین منزلہ گھر لیں جس میں ہمارا الگ پورشن ہو اور ہم اپنی مرضی سے کہیں آجاسکیں اور کچن بھی الگ ہو تاکہ کام میں سہولت رہے ۔ اب اس تمام صورتحال میں آپ سے رہنمائی درکار ہے : سوال (۱) میری اہلیہ کا میرے والدین کی خدمت نا کرنا کیسا ہے ؟ سوال (۲) چڑچڑے پن کی وجہ سے والدین سے بدتمیزی کی حد تک تکرار کرنا کیسا ہے ؟ سوال (۳) والد صاحب کا بہن کو مدرسے کی اجازت اور میری اہلیہ کو انکار کرنا کیا درست ہے ؟ سوال (۴) گھر والے اہلیہ کو ہمارے قریبی رشتے داروں کے ہاں نہیں لیکر جاتے ، کیا یہ فعل درست ہے ؟ سوال (۵) والد صاحب کی مجھ سے لاتعلقی اختیار کرنے کی دھمکی دینا کیا شریعت کی روشنی میں درست ہے ؟ سوال (۶) میری اہلیہ الگ پورشن کا مطالبہ کررہی ہے . کیا اسکا یہ مطالبہ درست ہے اور اس کی تکمیل مجھ پر لازم ہے ؟ سوال (۷) اگر میں والدین سے الگ پورشن کی بات کروں اور وہ انکار کردیں تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟ سوال (۸) والدین کے انکار کے باوجود اگر میں اہلیہ کے مطالبے پر پورشن کی جگہ الگ گھر لے لیتا ہوں تو کیا یہ والدین کی نافرمانی شمار ہوگی اور میں گناہگار ہوں گا؟ جلد از جلد جواب مرحمت فرمائیں۔ جزاکم اللہ فی الدارین۔

    جواب نمبر: 153373

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1264-1196/H=11/1438

    (۱) (۲) اگرچہ ان کی خدمت کرنا واجب تو نہیں ہے، مگر از راہِ صلہ رحمی وقرابت اپنے اور ساس سسر کے احوال کے مناسب کبھی کبھار ان کو خوش کرنے کی نیت سے کچھ خدمت کردیا کرے تو اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں قدر ومنزلت بڑھے گی اور گھریلو معاملات کے انتظام میں عمدگی پیدا ہوگی خوشگوار ماحول کی فضا ہموار رہے گی اور یہ درجہ تو کم سے کم ہے کہ ان کے ساتھ بے ادبی وبے احترامی کا معاملہ نہ کرے، بدتمیزی اور بدسلوکی سے ہرگز پیش نہ آئے بلکہ ہمہ اوقات مثل اپنے والدین کے ان کو ماں باپ سمجھ کر معاملات کو وابستہ رکھے، چڑچڑے پن میں بھی ان سے کچھ تکرار ونزاع نہ کرے ممکن ہے اس طرح پیش آنے پر کچھ تکلیف ہو تو نفس پر شاق بھی گذرے مگر کچھ عرصہ تکلیف اٹھاکر خوش اخلاقی سے پیش آتے رہنے پر ان شاء اللہ زندگی بھر کے لیے راحت وآرام کے دروازے کھل جائیں گے۔

    (۳) ممکن ہے والد صاحب کے ذہن میں اس فرق کی کوئی وجہ ہو۔

    (۴) نمبر (۱) ونمبر (۲) کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے اگر اس کو آپ کی اہلیہ محترمہ حرز جان بنالیں تو امید ہے کہ اس کے لیے بھی راستہ ان شاء اللہ کھل جائے گا۔

    (۵) بغیر کسی وجہِ شرعی کے تو دھمکی دینا درست نہیں۔

    (۶) اگر بسہولت اس کا مطالبہ پورا کرسکتے ہوں تو کردیں۔

    (۷) ان کو راضی کرنے کی حتی المقدرت کوشش کرتے رہیں۔

    (۸) اگر آپ کی طرف سے ادب واحترام میں نیز ان کو راضی کرنے کی خاطر سعی کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہوئی تو پھر ایسی صورت میں نافرمان شمار نہ ہوں گے نہ ہی گنہ گار ہوں گے، البتہ بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقامی کسی شیخ کامل سے رابطہ کرکے اور ان کے سامنے تمام احوالِ واقعیہ رکھ کر ان سے ہدایات حاصل کرکے پھونک پھونک کر قدم ا ٹھاتے رہیں تاکہ کسی معاملہ میں آپ کی طرف سے کسی بھی طرح کی کمی کوتاہی افراط وتفریط نہ ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند