Saudi Arabia
سوال # 151998
Published on: Jun 15, 2017
جواب # 151998
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1012-981/N=9/1438
صورت مسئولہ میں عورت عذر کی وجہ سے چار مہینے سے پہلے حمل کا اسقاط کراسکتی ہے، شرعاً گنجائش ہے۔ اور اگر حمل چار مہینے کا ہوگیا تو کسی صورت میں بھی اس کا اسقاط جائز نہ ہوگا؛ کیوں کہ چار مہینے پر حمل میں جان پڑجاتی ہے اور حاملہ کی طرح وہ بھی نفس محترم ہوجاتا ہے۔
وقالوا: یباح إسقاط الولد قبل أربعة أشھر الخ (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب النکاح، باب نکاح الرقیق ۴: ۳۳۵، ۳۳۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وفی کراھة الخانیة: ولا أقول بالحل؛ إذ المحرم لو کسر بیض الصید ضمنہ؛ لأنہ أصل الصید فلما کان یوٴاخذ بالجزاء فلا أقل من أن یلحقھا إثم ھنا إذا أسقطت بغیر عذر اھ، قال ابن وھبان ومن الأعذار أن ینقطع لبنھا بعد ظھور الحمل، ولیس لأبی الصبی ما یستأجر بہ الظئر ویخاف ھلاکہ، ونقل عن الذخیرة : لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ینفخ فیہ الروح ھل یباح لہ ذلک أم لا؟ اختلفوا فیہ ، وکان الفقیہ علي بن موسی یقول: إنہ یکرہ فإن الماء بعد ما وقع فی الرحم مآلہ الحیاة، فیکون لہ حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم ، ونحوہ فی الظھیریة ، قال ابن وھبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنھا لا تأثم إثم القتل اھ (رد المحتار ۴: ۳۳۶نقلاً عن النھر)،وفي الذخیرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد وصولہ إلی الرحم قالوا :إن مضت مدة ینفخ فیہ الروح لا یباح لھا… والنفخ مقدر بمائة وعشرین یوماً بالحدیث اھ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، قبیل باب الاستبراء ۹: ۵۳۷)،وإذا اعترض الولد في بطن الحامل ولم یجدوا سبیلا لاستخراج الولد إلا بقطع الولد إربا إربا، ولو لم یفعلوا ذلک یخاف ھلاک الأم، قالوا:إن کان الولد میتا فی البطن لا بأس بہ، وإن کان حیاً لم یجز أن یقطع الولد إربا إربا؛ لأنہ قتل النفس المحترم لصیانة نفس أخری من غیر تعد منہ، وذلک باطل (الفتاوی الخانیة علی ھامش الھندیة، کتاب الحظر والإباحة ۳: ۴۱۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند )۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
اس موضوع سے متعلق دیگر سوالات
کیا ایک عورت دوسری عورت کے سامنے اپنا ستر کھول سکتی ہے؟ قرآن یا حدیث کے حوالے سے جواب دیں۔
اگر کسی عورت کو رطوبت خارج ہوتی ہو (شہوت کی وجہ سے نہیں، بلکہ عام رطوبت ہو) اور مسلسل خروج بھی نہ ہوتا ہو، وہ چار رکعت نماز بلا اس عذر کے پیش آئے ہوئے پڑھ سکتی ہے۔ کیا اسے ہر نماز کے لیے وضو کرنا ہوگا؟ اگر ہاں، تو اُس صورت میں وہ کیا کرے جب وہ گھر سے باہر ہو اور وضو کرنے کی حالت میں نہ ہو؟ کیوں کہ ہر جگہ اور ہر وقت وضو کرنا ممکن نہیں۔ اس صورت حال میں کیا وہ پہلے کے وضو سے پڑھ سکتی ہے تاکہ اس کی فرض نماز قضا نہ ہو؟ مجھے اس مسئلہ کے متعلق اشتباہ ہے۔ جلد جواب دیں۔
سماج کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر، از روئے شریعت اسلامیہ عورتوں (شادی شدہ و غیر شادی شدہ) کے لیے کیا یہ جائز ہے کہ وہ غیر محرم مرد دکانداروں سے(کسی محرم کی عدم موجودگی میں) انڈر گارمنٹ جیسے سینہ بند، انڈر ویر، پینٹی وغیرہ سامان خریدیں؟ شادی شدہ و غیر شادی شدہ دونوں طرح کی عورتوں کے لیے اس کا حل کیا ہے؟شادی شدہ عورتوں کے لیے ان کے شوہر خریداری کرسکتے ہیں ، لیکن غیر شادی شدہ عورتوں کی خریداری وغیرہ کا ذمہ دار کون ہے، ان کی مائیں یا کوئی اور؟
حیض کے آخری دن غسل سے قبل کیا میاں بیوی ہم بستر ہوسکتے ہیں؟ کیوں کہ اس کا حیض تو ختم ہوچکا۔ یا یہ ضروری ہے کہ ہم بستر ہونے سے قبل بیوی غسل حیض سے فارغ ہوجائے؟
کیا عورتیں حیض کی حالت میں اذان کا جواب دے سکتی ہیں؟ نیز، کیا عورتیں دوران حیض صفائی (جیسے ناخن تراشنا، بال صاف کرنا) کرسکتی ہیں؟
کیا کسی عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ برتھ کنٹرول آپریشن کروالے؟ اس سے اس کی نیت کھانے یا پیسہ بچانے کی نہیں، بلکہ مقصود صرف ذہنی سکون، صحت اور موجودہ دو تین بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت ہے۔
کیا دوران حمل مجامعت جائز ہے؟
اگر کسی مسلم عورت کی عصمت دری ہو اور وہ اس کی وجہ سے حاملہ ہوجائے تو کیا اس کے لیے اسقاط حمل کرانا جائز ہے؟
ایک عورت کو آپریشن کے ذریعہ بچہ پیدا ہوا۔ اسے ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب وہ بچہ جننے کے قابل نہیں رہے گی، اگر کوشش بھی کرے گی تو بچہ مرجائے گا۔ اسے تین بچے ہیں۔ اب وہ جاننا چاہتی ہے کہ کیا وہ علاج کے ذریعہ *بچہ جننے کا سلسلہ* ختم کرسکتی ہے؟ہماری شریعت میں کیا اس کی اجازت ہوگی؟
میں آپ کے ایک جواب سے متعلق سوال کرنا چاہتی ہوں۔ وہ سوال ایک لڑکی کے متعلق تھا جو ایک اسلامی مدرسے میں ایسے مرد اساتذہ سے پڑھتی تھی جو اس کو پردہ کے بغیر تعلیم دیتے تھے۔ میں بھی ایک مدرسے میں جاتی ہوں ، وہاں مرد اساتذہ (عالم و مفتی) ہمیں کسی پردے کے بغیر تعلیم دیتے ہیں لیکن ہم طالبات پردہ کرتی ہیں اور نقاب میں ہوتی ہیں۔ بہر حال ہمارے اساتذہ ہم کو نقاب پہننے پر مجبور نہیں کرتے ، بلکہ پردہ کرنے کا مدار خود ہماری ذات پر ہے۔