• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 68721

    عنوان: تعمیر نو یا توسیع وغیرہ کے موقعہ پر اس میں سے کچھ بھی حصہ مسجد شرعی سے خارج کرنا كیسا ہے؟

    سوال: پرانی مسجد کا وہ حصہ جس جگہ پر سو سالوں سے سجدہ کیا گیا ہو اور اب بھی نماز اداہورہی ہے اس جگہ کو توسیعِ مسجدکے وقت چھوڑنا یا اسکے تھوڑے حصے کو چھوڑ کر کسی اور کام میں استعمال کرنا مثلاْ ملگیاں وغیرہ بنانا جائز ہے یا نہیں۔تفصیلی وضاحت مع دلائل دیں۔ عند اللہ ماجور

    جواب نمبر: 68721

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1221-1225/N=11/1437 جب کوئی جگہ ایک بار با قاعدہ شرعی طریقہ پر مسجد ہوجائے تو وہ قیامت تک ہمیشہ کے لیے مسجد ہوجاتی ہے، کبھی بھی اس کی مسجدیت ختم نہیں ہوسکتی، ہمیشہ اس کے ساتھ مسجد کا معاملہ کرنا اور نماز وغیرہ کے لیے خاص رکھنا ضروری ہے، تعمیر نو یا توسیع وغیرہ کے موقعہ پر اس میں سے کچھ بھی حصہ مسجد شرعی سے خارج کرنا یا نماز وغیرہ کے علاوہ کسی اور کام کے لیے خاص کرنا جائز نہیں، پس صورت مسئولہ میں مسجد کے جس حصے میں برسہا برس سے نماز ادا کی جارہی ہے اور وہ مسجد شرعی میں شامل ہے، اسے یا اس کا کچھ بھی حصہ مسجد شرعی سے خارج کرنا یا وہاں کرایہ کی دکانیں (ملگیاں) بنانا جائز نہیں، جو لوگ ایسا پلان ومنصوبہ رکھتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ اس سے باز آجائیں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو احترام مسجد کے خلاف ہو اور حرام ہو، اللہ تعالی انھیں ہدایت عطا فرمائیں، قال في الدر (مع الرد کتاب الوقف ۶: ۵۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند) : ولو خرب ما حولہ واستغنی عنہ یبقی مسجداًعند الإمام والثاني أبدا إلی قیام الساعة وبہ یفتی حاوی القدسي اھ، وفی الرد: قولہ: ”عند الإمام والثاني“ : ……وأکثر المشایخ علیہ مجتبی۔ وھو الأوجہ فتح اھ بحر (البحر الرائق، کتاب الوقف ۵: ۴۲۱ ط: مکتبة زکریا دیوبند) (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وقال في الدر (مع الرد، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا۲: ۴۲۸، ط مکتبہ زکریا دیوبند) : لأنہ مسجد إلی عنان السماء (المصدر السابق، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا۲: ۴۲۸) ، قولہ: ”إلی عنان السماء“ بفتح العین، وکذا إلی تحت الثری کما في البیري عن الإسبیجابي (رد المحتار) ، و قال في الدر (مع الرد، کتاب الوقف۶: ۵۴۸) : لو بنی فوقہ بیتاً للإمام لا یضر؛ لأنہ من المصالح، أما لو تمت المسجدیة ثم أراد البناء منع، ولو قال: عنیت ذلک لم یصدق، تاتارخانیة، فإذا کان ہذا فيا لواقف فکیف بغیرہ، فیجب ہدمہ ولو علی جدار المسجد، ولا یجوز أخذ الأجرة منہ ولا أن یجعل شیئا منہ مستغلا ولا سکنی بزازیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸) ، وانظر الرد أیضًا، نیز جواہر الفقہ (۳: ۱۲۴، ۱۲۵، ۱۳۵، رسالہ آداب المساجداور اس کا ضمیمہ، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی) اور امداد الاحکام (۳: ۲۳۲، ۲۳۳، ۲۶۹، ۲۷۰، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی) دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند