• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 174071

    عنوان: نئی مسجد کی سمتِ قبلہ كی تعیین كس طرح ہوگی؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں؟ ہمارے وہاں دس سال پہلے ایک مسجد قائم کی گئی جس میں اب تک الحمدللہ نمازیں باجماعت ادا کی جارہی ہی۔ مسجد قائم کرنے کے تین سال بعد پیمائشی آلات کے ذریعے معلوم ہوا کہ سمت قبلہ تقریبا 30 ڈگری تک منحرف ہے، لہذا لوگوں نے ذمہ داران سے رابطہ کرکے قبلہ کو درست کرنے کے لیے کہا تو ذمہ داران نے جواب دیا کی نماز تو ہو ہی جاتی ہے اور وہ قبلہ درست نہیں کر رہے ہیں۔ لہذا کچھ مسائل قابل استفسار ہیں؛ ۱) تقریبا تین سال تک تو قبلہ کے بارے میں کسی کو خبر نہیں تھی تو اس درمیان نماز کا کیا ہو گا؟ ۲) قبلہ کے بارے میں معلوم ہوئے سات سال ہو چکے ہیں پھر بھی لوگ نماز ادا کر رہے ہیں تو ان سات سال کے درمیان جانتے ہوئے بھی (ہمارا قبلہ صحیح نہیں ہے) نماز کا ادا کرنا کیسا ہے؟ اور یہ سات سال کی نماز کا کیا حکم ہے؟ ۳) ذمہ داران اب بھی قبلہ درست نہیں کر رہے ہیں توہم مصلیان کیا کریں؟ آیا اسی منحرف قبلہ مسجد میں نماز پڑھیں یا کسی اور مسجد میں نماز ادا کریں؟ تشفی بخش جواب دیں مہربانی ہوگی. جزاکم اللہ خیر الجزاء. أطال اللہ عمرکم وبیض اللہ وجوہکم

    جواب نمبر: 174071

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 161-21T/D=03/1441

    نئی مسجد کی سمت قبلہ، علاقے کی پرانی مسجدوں کو دیکھ کر ان کے موافق متعین کرنی چاہئے، پھر اگر حقیقی سمتِ قبلہ سے کچھ انحراف ہو جائے تو مضر نہیں۔ جتنا انحراف معاف ہے اس کی مقدار محتاط قول کے مطابق دونوں طرف ۲۴-۲۴/ درجے (ڈگری) ہے۔

    (۱، ۲) محتاط قول تو وہی ہے جو ذکر کیا گیا، لیکن صورت مسئولہ میں گزشتہ دس سال کی نمازوں کے اعادے کا حکم نہیں کیا جائے گا، اس لئے کہ ایک قول اس سلسلے میں دونوں جانب ۴۵-۴۵/ درجے مضر نہ ہونے کا بھی ہے۔

    (۳) مختار قول چوں کہ یہی ہے کہ دونوں جانب ۲۴-۲۴/ درجے (ڈگری) کا انحراف معاف ہے؛ لیکن انحراف کے ساتھ ہمیشہ نماز پڑھتے رہنا بھی اچھا نہیں، اور ۲۴/ ڈگری سے زائد ہے تو نماز ہی کے درست نہ ہونے کا اندیشہ ہے، ایسی صورت میں مقامی علماء اور مفتیان کرام سے درخواست کی جائے، وہ مقدار انحراف کی تحقیق کرکے علاقے کی قدیم مسجد کے موافق قبلہ درست کروادیں گے، قبلہ درست کرنے کے لئے، قبلے کی دیوار کو درست کرنا ضروری نہیں ہے، اندر کی صفیں درست کرلی جائیں تو بھی کافی ہے۔ ان حضرات علماء کو کوئی مزید بات پوچھنی ہوگی تو وہ اس کے بارے میں استفتاء مرتب کرکے یہاں سے پوچھ لیں گے۔ قال الشیخ شفیع العثمانی فعلی ہذا القول یکون الانحراف الجائز من الیمین والیسار أربع وعشرون درجة، ومجموع الجہة ثمان وأربعون درجة، وعلی القول الأول: القدر الجائز خمس وأربعون درجة في کل جانب، ومجموع الجہة تسعون درجة، وہو ربع الدائرة، واختار الشامي وغیرہ القول الثاني لما فیہ من الاحتیاط ۔ (جواہر الفقہ: ۲/۳۴۴، حاشیة من رسالة: تنقیح المقال في تصحیح الاستقبال) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند