• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 173825

    عنوان: مسجد کی تیسری منزل پر امام صاحب کی رہائش کا نظم کرنا

    سوال: السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے اکرام اس مسلہ کے بارے میں ۔۔۔۔ ایک مسجد ہے جس کی تین منازل ہیں اور تیسری منزل امام صاحب کیلئے فیملی کواٹر بنایا ہے اور ابتدا بھی کواٹر کی ہی نیت تھی اب کیا یہ کواٹر مسجد کے حکم میں ہے یا نہیں

    جواب نمبر: 173825

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:109-95/N=2/1441

    صورت مسئولہ میں اگر مسجد کے لیے زمین کی خریداری کے بعد یا کسی صاحب خیر کے مسجد کے لیے زمین وقف کرنے کے بعد جب ذمہ داران مسجد نے تعمیر کا منصوبہ بنایا تھا تو اگر اُسی وقت باہمی مشورے سے یہ طے کرلیا گیا تھا کہ تیسری منزل پر امام صاحب کی رہائش رہے گی تو یہ مسجد بلاشبہ مسجد شرعی ہے اور تیسری منزل(امام صاحب کا رہائشی حصہ) مسجد سے مستثنی رہے گی، یعنی: اس میں آداب مسجد کی پابندی ضروری نہیں ہوگی۔ اور اگر یہ مسجد قدیم ہے ، سابقہ تعمیر کی بوسیدگی اور خستگی کی وجہ سے اس کی نئی تعمیر کی گئی ہے اور اس نئی تعمیر کے آغازکے موقع پر تیسری منزل پر امام صاحب کی رہائش تجویز کی گئی ہے تو یہ تجویز باطل وغیر معتبر ہے ، پہلی مسجد بلا کسی استثنا مسجد ہوکر تحت الثری سے اوپر آسمان تک سارا حصہ مسجد ہوچکا ہے، اب اس کے کسی حصہ میں امام صاحب کی رہائش رکھنا جائز نہ ہوگا (جواہر الفقہ،۳: ۱۲۴، ۱۲۵، ۱۳۵، رسالہ آداب المساجداور اس کا ضمیمہ، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، اور امداد الاحکام، ۳: ۲۳۲، ۲۳۳، ۲۶۹، ۲۷۰، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی، وغیرہ)۔

    کرہ تحریماً …البول والتغوط فیہ؛ لأنہ مسجد إلی عنان السماء (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الصلاة باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا ۲:۴۲۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،قولہ : ” إلی عنان السماء “ : بفتح العین، وکذا إلی تحت الثری کما فی البیري عن الإسبیجابي(رد المحتار)، لو بنی فوقہ بیتاً للإمام لا یضر؛ لأنہ من المصالح،أما لو تمت المسجدیة ثم أراد البناء منع ،ولو قال:عنیت ذلک لم یصدق ، تاترخانیة … فیجب ھدمہ ولو علی جدار المسجد الخ (الدر لمختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸)، قولہ:”ولو علی جدار المسجد“ مع أنہ لم یأخذ من ھواء المسجد شیئاً اھ ط، ونقل فی البحر قبلہ: ولا یوضع الجذع علی جدار المسجد وإن کان من أوقافہ اھ (رد المحتار)، قولہ: ” ولا أن یجعل الخ“:…… قلت: وبھذا علم أیضاً حرمة إحداث الخلوات فی المساجد کالتي في رواق المسجد الأموي ولا سیما ما یترتب علی ذلک من تقذیر المسجد بسبب الطبخ والغسل ونحوہ (المصدر السابق) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند