• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 171891

    عنوان: اوقاف کے بارے میں سوال

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے گاؤں قطب گڑھ ضلع مردان پاکستان میں ایک مسجد ہے ۔جوکہ مسجد باباجی کے نام سے موسوم ہے۔ گاؤں کے ایک خاندان کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ہمارے آباں و اجداد نے مسجد کے لیباباجی کو وقف کیا تھا اورگاؤں کے لوگوں نے باباجی نامی ایک عالم کے ساتھ مل کرکچہ مسجد بنایا تھا۔ جبکہ اسی باباجی کے نواسے کا دعوی ہے کہ یہ زمین باباجی نے مسجد کے لی پیسوں پر خریدا تھا۔ اور یہ ہمارا ذاتی مسجد ہے حالانکہ اس کے لی باقاعدہ چندے اکھٹے۔کی جاتے ہیں ۔اور ایک وقف عوامی مسجد ہے۔ ابھی ابھی تقریبا پنتالیس لاکھ روپے چندہ مسجد کر از سر نو بنانے پر لگ گی اور مزید کام کے لی چندہ اکٹھا کیا جا رہا ہے ۔ بات یہ ہے کہ زمین گاؤں کے ایک خاندان نے وقف کیا تھا۔یا۔اسی باباجی نے مسجد کے لے خریدا تھا۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ وقف تو ہے ہی۔ کیونکہ اگر بابا جی بے خریدا تھا بھی تو مسجد کے لی نہ کہ ذاتی حجرے کے لی۔ اب اسی مسجد میں باباجی کے وقت سے اسی خاندان میں امامتی چلی آرہی ہے۔یاد رہے کہ اسی مسجد کا موجودہ امام دیوبند ی المسلک ہے۔ سوالات یہ ہیں ۱۔ کیااس وقف مسجد کا امام کسی کومسجد میں آنے سے منع کرسکتا ہے۔ ۲۔ کیا یہ امام کسی دوسرے عالم جو کہ وہ بھی دیوبند المسلک ہے قران کے ترجمے اور درس سے روک سکتا ہے۔ حالانکہ گاؤں کے سارے لوگوں کا اسرار ہے کہ یہ عالم ہمیں قران کا درس دیں۔ ۳۔ اگر یہ مسجد اسی دعوی کے مطابق ان کا ذاتی مسجد ہے توکیا اس کے لی چندہ اکھٹا کیا جا سکتا ہے۔ ۴۔اگر یہ مسجد وقف نہیں ہے تو کیا اس مسجد میں نماز جمعہ و عیدین پڑھا جا سکتے ہیں۔ ۵۔ اگر یہ امام کسی ایک فرد یا گروہ کو منع کریے کہ میرے پیچھے نماز نہ پڑھو ۔تواسی مسجد میں دوسرا جمات شروع کیا جا سکتا ہے۔ ۶۔ اگر محلے کے زیادہ افراد کی ر ا اسی بات پر ہو کہ اسی امام کو ہٹا یا جا تو ہٹایا جا سکتا ہے۔ والسلام خالد محمودگاؤں قطب گڑھ ڈاک خانہ شیرگڑھ ضلع مردان۔ خیبر پختونخواہ پاکستان۔ Mobile No. 0313.9280334. براے مہربانی ان سوالات کا جواب ضرور دیں۔اس سے پہلے بھی میں نے ایک سوال کیا تھا۔تو اس کا جواب نہیں ملا تھا۔ وہ تو ذاتی سال تھا کوی بات نہیں۔ لیکن یہ اجتماعی مسئلہ ہے۔

    جواب نمبر: 171891

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1348-179T/l=12/1440

    (۱) مسجد کسی کی ذاتی ملک نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کا گھر ہے اور اس میں نماز،ذکر تلاوت وغیرہ کا ہر ایک کو اختیار ہے ،امام کا بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی کو مسجد آنے سے منع کرنا درست نہیں ۔

    قال فی أحکام القرآن للتہانوی:قولہ تعالی :(مساجداللہ)یقتضی أنہا لجمیع المسلمین عامة الذین یعظمون اللہ تعالی ٰ وہذا حکمہا بإجماع الأمة علی أن البقعة إذا عینت للصلاة خرجت عن جملة الأملاک المختصة بربہا فصارت عامة لجمیع المسلمین بمنفعتہا ومسجدیتہا.( أحکام القرآن للتہانوی:1/60،إدارة القرآن کراتشی) وفی دررالحکام: والمسجد لا یکون لأحد فیہ حق المنع قال اللہ تعالی {ومن أظلم ممن منع مساجد اللہ أن یذکر فیہا اسمہ} (البقرة: 114) (درر الحکام شرح غرر الأحکام 2/ 135، الناشر: دار إحیاء الکتب العربیة)

    (2) امام کا دوسرے عالم کو تفسیر وغیرہ سے روکنا کس بناپر ہے ؟اگر محض اسی بناپر ہے کہ یہ میری مسجد ہے ؛لہذا اس میں کسی کوتفسیرکرنے کا حق نہیں تو منع کرنے کی یہ وجہ درست نہیں ؛البتہ اگر اس کی کوئی اور وجہ ہو تو اس کو لکھ کر سوال کیا جائے پھر ان شا ء اللہ جواب دیا جائے گا ۔

    (۳)آپ کے بیان کے مطابق جب وہ مسجدموقوفہ زمین پر تعمیرشدہ ہے تو اس کے لیے چندہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ،اس زمین کو کسی خاندان والوں کا اپنی مملوکہ مسجد سمجھنا درست نہیں ۔

    (۴) جمعہ وعیدین کی صحت کے لیے شرعی مسجد کا ہونا ضروری نہیں ؛اس لیے اس مسجد کو وقف تسلیم نہ کرنے کی صورت میں بھی اس مسجد میں جمعہ وعیدین کی نماز پڑھنا جائز ہوگا۔

    (۵) بلاوجہ امام مسجد کا کسی فرد یا گروہ کو اپنی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے منع کرنا درست نہیں اور نہ ہی اس صورت میں اسی مسجد میں جماعتِ ثانیہ کی اجازت ہے ؛بلکہ ان لوگوں کو چاہیے کہ اسی مسجد میں امام کے پیچھے نماز اداکریں ،امام کے منع کرنے کے باوجود ان کی نماز درست ہوگی اور ان کو نماز باجماعت کا ثواب بھی ملے گا ،اور اگراس امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی صورت میں کسی فتنہ کا اندیشہ ہو تو قریب کی کسی اور مسجد میں جاکر نماز ادا کرلیا کریں۔ (۶)مسجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ اس مسئلہ میں سنجیدگی سے غور کرے اور بعد تفتیش اگر اس کے سامنے یہ بات ظاہر ہو کہ واقعی امام میں غلطی ہے اور امام کی وجہ سے لوگوں میں انتشار ہے تو مسجد کی انتظامیہ کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اس امام کو ہٹاکر کسی اور لائق مسائل نماز وجماعت سے واقف شخص کو امام مقرر کردے ،محض یک طرفہ بیان پر ہمارے لیے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند