• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 16888

    عنوان:

    میرے گاؤں میں کئی مسجدیں تھیں پر سبھی چھوٹی تھیں۔ دس سال پہلے لب سڑک ایک مکان فروخت ہورہا تھا جسے میں نے پچیس ہزار روپیہ میں طے کرلیا اور نیت کی کہ لوگوں کی رائے سے ایک بڑی مسجد کی تعمیرکی جائے گی ۔ مشورہ کے بعد لوگوں کی رائے کے بعد فیصلہ ہوا کہ یہاں مسجد نہ بنائی جائے لیکن کئی لوگ وہاں مسجد تعمیر کرنے کے لیے مجھ پر زور دیتے رہے اور میں نے کام شروع کردیا اور اس زمین پر مکتب اور مسجد دونوں کی نیت کرلی۔ زمین کی قیمت کچھ عوام کے چندہ سے کچھ اپنے ذریعہ سے کسی طرح ادا کرکے مسجد کی بنیاد ڈال دی ۔ کئی سال ایسے ہی کام بند تھا پھر کچھ لوگ تیار ہوئے اور چھپر ڈال کر نماز پانچ گانہ شروع ہوگئی اوربعد میں لوگوں کے چندے سے 40x12کی سیمنٹ کی چھاؤنی ڈال دی گئی۔ اس کے بعد لکھنوٴ کی ایک کمیٹی کی مدد سے چھت کا انتظام ہوا۔ ان کے ذریعہ دی گئی رقم سے مسجد تو تیار ہوگئی پر میں پچیس ہزار کا قرض دار ہوگیا۔ ........

    سوال:

    میرے گاؤں میں کئی مسجدیں تھیں پر سبھی چھوٹی تھیں۔ دس سال پہلے لب سڑک ایک مکان فروخت ہورہا تھا جسے میں نے پچیس ہزار روپیہ میں طے کرلیا اور نیت کی کہ لوگوں کی رائے سے ایک بڑی مسجد کی تعمیرکی جائے گی ۔ مشورہ کے بعد لوگوں کی رائے کے بعد فیصلہ ہوا کہ یہاں مسجد نہ بنائی جائے لیکن کئی لوگ وہاں مسجد تعمیر کرنے کے لیے مجھ پر زور دیتے رہے اور میں نے کام شروع کردیا اور اس زمین پر مکتب اور مسجد دونوں کی نیت کرلی۔ زمین کی قیمت کچھ عوام کے چندہ سے کچھ اپنے ذریعہ سے کسی طرح ادا کرکے مسجد کی بنیاد ڈال دی ۔ کئی سال ایسے ہی کام بند تھا پھر کچھ لوگ تیار ہوئے اور چھپر ڈال کر نماز پانچ گانہ شروع ہوگئی اوربعد میں لوگوں کے چندے سے 40x12کی سیمنٹ کی چھاؤنی ڈال دی گئی۔ اس کے بعد لکھنوٴ کی ایک کمیٹی کی مدد سے چھت کا انتظام ہوا۔ ان کے ذریعہ دی گئی رقم سے مسجد تو تیار ہوگئی پر میں پچیس ہزار کا قرض دار ہوگیا۔ اس کی ادائیگی میں مصلیان نے کوئی مدد نہیں کی ۔میں نے قرض تو ادا کردیا پر مسجد میں بچا ہوا کام ویسے ہی پڑا رہ گیاکیوں کہ آگے کام کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ مسجد کی بنیاد کے وقت 40feetx22.5feetمسجد کی حدود کا اندرون حصہ اتر دکھن جانب گیارہ فٹ و پورب کی جانب بارہ فٹ خارج حصہ طے کیا اس طرح قریباً 62feetx35feetکی چھت ہے اس کے بعد کچھ تکونی جگہ باقی ہے جس میں مکتب کی نیت ہے۔ اب میں آپ سے کچھ سوالوں کا جواب چاہتاہوں: (۱)مسجد کی حدود شرعی (اندرون) و خارج مسجد یا احاطہ مسجد دونوں میں مسجد کے نام سے لیا گیا چندہ لگانا جائز ہے یا پھر الگ دو چندہ لیا جانا چاہیے تھا؟ (۲)مسجد کے احاطہ کے باہر کا وہ حصہ جو مکتب کے لیے چھوڑا ہے کسی وقت فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اندر کے حصہ کو چھوڑ کر باہر نماز تو ہو جاوے گی پر مسجد کا ثواب نہیں ملے گا ؟ (۳)کیا مصلیان مسجد کسی کو متولی مان کر مسجد کے خارج حصے و مکتب کے لیے چھوڑی ہوئی جگہ کو حدود مسجد میں داخل کرسکتے ہیں؟

    نوٹ:میں نے مسجد کی جو حدود قائم کی تھی صرف یہ غرض تھی کہ تبلیغی جماعت خارج حصہ میں قیام و طعام کرے گی اور مکتب کے بچے قرآن کی تعلیم خارج حصہ میں حاصل کریں گے ۔اس لیے مصلیان کے کہنے پر میں نے پہلے قائم کی گئی حدود میں تبدیلی کرنے سے منع کردیا جس پر مصلیوں نے کسی سے فتوی لیا ہے کہ مصلیان کسی کو بھی متولی بناکر حدود بدل سکتے ہیں۔ مسجد کے اندرونی حصہ میں پانچ صفیں بن سکتی ہیں پر صرف دو صف کے ہی نمازی ہوتے ہیں۔ مسجد میں تینوں طرف دس دس فٹ کی کھڑکیاں ہیں او رپورب کی جانب پانچ محراب جس کی وجہ سے ہوا او رروشنی کی کوئی کمی نہیں ہے پھر بھی وہ لوگ مسجد کے باہر نماز کے لیے ضد کرتے ہیں ۔ برائے کرم میرے سوالوں کا جواب مفصل عنایت فرمائیں۔سہیل احمد ابن مرحوم مولوی مسیح الدین مظاہری، رسول پور کاشی پور، پوسٹ بمرولی، الہ آباد، یوپی والسلام

    جواب نمبر: 16888

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ):2078=1675-11/1430

     

    (۱) مسجد کے عنوان سے کیا گیا چندہ داخل وخارج حصہ میں مسجد کے لگانا درست ہے، معطیین کی طرف سے عامةً اس کی اجازت ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی معطی مختص کردے تو الگ بات ہے، مثلاً کوئی کہہ دے کہ میری رقم سے منبر یا محراب بنوادو۔

    (۲) یہ صحیح ہے کہ مسجد میں بالکلیہ موقوف کرکے مکتب میں جماعت کی تو مسجد کا ثواب نہ ملے گا، البتہ جماعت اصل مسجد (داخل مسجد حصہ) میں قائم کی اور تمام جگہ پرُ ہوگئی اس کے بعد لوگ مکتب میں کھڑے ہوکر مسجد کی جماعت میں شامل ہوگئے تو وہ ان شاء اللہ مسجد کے ثواب سے محروم نہ ہوں گے۔

    (۳) مصلیان کو شرعی طور پر اس کا حق نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند