• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 166707

    عنوان: جماعت خانہ میں خانہ کعبہ کے ایسے بورڈ اور نقشے لگانا، جن میں انسانوں کی تصاویر نمایاں اور واضح ہوں

    سوال: شہر بنگلور کے کورمنگلا علاقہ میں ایک نئی مسجد ‘ُ PRAYE HALL”کے نام سے موجود ہے جہاں پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ نماز جمعہ کا بھی نظم ہے ۔یہ ایک تجارتی سائٹ ہے جو ایک مسلمان کی ملکیت ہے ۔اس زمین پر ہمہ منزلہ تجارتی مرکز Commercial Complex کی تعمیر کے لئے بلدیہ سے اجازت نامہ کی کوشش جاری ہے ۔مالک زمین کا زبانی کہنا ہے کہ جب بھی یہاں مذکورہ عمارت بنے گی ،کسی حصہ میں نمازوں کے اہتمام کاانتظام کیا جائے گا۔ اب جس سطح زمین پر جہاں نمازیں پڑھی جارہی ہیں ،وہاں چاروں سمت کپڑوں کی چادر تان دی گئی ہے ۔ جواب طلب امر یہ ہے کہ اس مسجد کے اندرونی دیواروں پر چند ہورڈنگ (فلیکس کے بورڈس) ٹانگ دئیے گئے ہیں ،(جس کی تصویر یں درج ذیل دی جارہی ہیں) جواب طلب امر یہ ہے کہ *جب تصویر گھر میں لگانے سے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے تو کیا مسجد میں ایسی قد آدم تصویر لگائی جاسکتی ہیں؟ جس میں مقدس مقامات کعبہ شریف اور گنبد خضراء کا منظر توہے لیکن جو چہرے دکھائے گئے ہیں ان کی شناخت صاف طور پر ہورہی ہے کہ کون جوان ہے کون بوڑھا اور کون عورت ہے اور کون مرد ۔منتظمین سے درخواست کی گئی کہ چہرے واضح جہاں ہیں وہاں کم سے کم دبیز ہلکا کاغذ چسپاں کیجئے تاکہ انسانی شکل واضح نہ ہوپائے لیکن وہاں اس کے جواب میں خاموشی ہی خاموشی ہے ۔عامة المسلمین کے لئے اس کی وضاحت طلب کی جارہی ہے ۔ گزارش ہے کہ اس ضمن میں شرعی جواب سے نوازیں ۔پتہ لکھا ہوا جوابی لفافہ اس لفافہ کے ساتھ ملفوف کیاجا رہاہے ۔

    جواب نمبر: 166707

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:234-24T/N=4/1440

    گھر ، دکان یا مسجد کہیں بھی کسی جاندار کی ایسی تصویر لگانا یا لٹکانا ناجائز ہے کہ اگر تصویر زمین پر ہو اور کھڑے ہوکر اس پر نظر ڈالی جائے تو چہرہ وغیرہ صاف طور پر ظاہر ونمایاں ہو اور ایسی تصویر جہاں لگی ہو یا لٹکائی گئی ہو، وہاں رحمت کے فرشتے بھی نہیں آتے۔ اور جہاں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہو اگرچہ وہ مسجد نہ ہو؛ بلکہ صرف مصلی (جماعت خانہ) ہو، وہاں ایسی تصویریں لگانا اور بھی سخت ناجائز ہے؛ کیوں کہ تصویر نمازی کے سامنے، دائیں، بائیں یا اوپر ہو تو نماز مکروہ ہوتی ہے؛ بلکہ اگر پیچھے ہو تب بھی مکروہ ہے اگرچہ اس کی کراہت کچھ کم ہے؛ اس لیے ذمہ داران مصلی کو چاہیے کہ جہاں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے، وہاں سے یہ سب بوڑد ہٹادیں؛ تاکہ لوگوں کی نمازوں میں کوئی کراہت بھی نہ ہو اور یہ تصویریں رحمت کے فرشتوں کی آمد سے مانع بھی نہ ہوں ۔

    عن أبي طلحةقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تدخل الملائکة بیتا فیہ کلب ولاتصاویر، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب التصاویر، الفصل الأول، ص:۲۶۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، و- یکرہ- أن یکون فوق رأسہ أو بین یدیہ أو بحذائہ یمنة أو یسرة أو محل سجودہ تمثال ولو في وسادة منصوبة لا مفروشة واختلف فیما إذا کان التمثال خلفہ، والأظھر الکراھة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب مایفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲: ۴۱۶، ۴۱۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، التمثال خاص بمثال ذي الروح (رد المحتا، ۲: ۴۱۶)، قولہ: ”تمثال“: أي: مرسوم في جدار أو غیرہ أو موضوع أو معلق کما في المنیة وشرحھا (رد المحتار، ۲: ۴۱۷)، قولہ: ”والأظھر الکراھة“: لکنھا فیہ أیسر؛ لأنہ لا تعظیم فیہ ولا تشبہ، معراج۔ وفي البحر قالوا: وأشدھا کراھة ما یکون علی القبلة أمام المصلي، ثم ما یکون فوق رأسہ، ثم مایکون عن یمینہ ویسارہ علی الحائط، ثم ما یکون خلفہ علی الحائط أو الستر اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند