عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 148777
جواب نمبر: 148777
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 465-349/sd=5/1438
(۱) مساجد کے لیے حکومت سے امداد لینا فی نفسہ ناجائز نہیں ہے؛ لیکن ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے مساجد وغیرہ کے لیے حکومت کی امداد قبول کرنے کو بعض مصالح کے پیش نظر اور مفاسد کے اندیشہ سے کبھی پسند نہیں فرمایا ہے اور اب حالات کے تجربہ سے اکابر کی رائے کا راجح اور بہتر ہونا ثابت ہوچکا ہے؛ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ مساجد کے ائمہ اور موٴذنین کے لیے حکومت کی امداد کو قبول نہ کیا جائے؛ بلکہ مسلمانوں کے عمومی چندے اور تعاون سے ان کی تنخواہ کا نظم کرنا چاہیے۔
(۲) اگر بالفرض حکومت کی امداد قبول کر لی گئی، تو حکومت کی رقم جس مد کے لیے آئے گی، شرعا اُس رقم کو اسی مد میں خرچ کرنا لازم ہوگا۔اگر حکومت کی رقم ائمہ اور موٴذنین کے لیے آئے گی، تو اسی میں رقم خرچ کرنا لازم ہوگا۔اس رقم کو روک کر کسی اور مصرف میں استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہوگا؛ البتہ عمومی چندہ کی رقم جس میں چندہ دہندگان کی طرف سے کسی خاص مصرف کی تعیین نہ کی گئی ہو، اس کو متولی یا منتظمہ کمیٹی مصالح مسجد میں کہیں بھی استعمال کر سکتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند