• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 148777

    عنوان: مساجد کے لیے حکومت سے امداد لینا ؟

    سوال: حکومت آندھرا پردیش کی جانب سے مساجد کے ائمہ وموَذنین کو بالترتیب پانچ ہزار اور تین ہزارروپے بطور امداد دینے کاعلان کیا گیا اوراس کے لئے ان مساجدسے درخواستیں لی جارہی ہیں جن کی آمدنی نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا لینا جائز ہے ؟ دوسراسوال یہ ہے کہ چونکہ یہ رقم مسجد کے اکاؤنٹ میں آئے گی توکیایہ رقم امام اور موئذن کو دینا ضروری ہے یا ان کوحسب معمول سابقہ تنخواہ دیکرحکومت کی امدادی رقم کو مسجد کے اکاؤنٹ میں روک لینا جائز ہے بالفاظ دیگرحکومت کی امداد کوسابقہ تنخواہ میں مدغم کردینامثال کے طور پرامام کی تنخواہ دس ہزار ہو تو حکومت کی امداد آنے کے باوجود پندرہ ہزارکے بجائے دس ہزار ہی دینایا کل نہیں توبعض رقم روک لینااور امام وموئذن کو نہ دینا کا کیا حکم ہے ۔ براہ کرم ان سوالوں کا ایسامفصل ومدلل جواب عطا فرمائیں کہ پھرکسی سے پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آے ۔

    جواب نمبر: 148777

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 465-349/sd=5/1438

     (۱) مساجد کے لیے حکومت سے امداد لینا فی نفسہ ناجائز نہیں ہے؛ لیکن ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے مساجد وغیرہ کے لیے حکومت کی امداد قبول کرنے کو بعض مصالح کے پیش نظر اور مفاسد کے اندیشہ سے کبھی پسند نہیں فرمایا ہے اور اب حالات کے تجربہ سے اکابر کی رائے کا راجح اور بہتر ہونا ثابت ہوچکا ہے؛ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ مساجد کے ائمہ اور موٴذنین کے لیے حکومت کی امداد کو قبول نہ کیا جائے؛ بلکہ مسلمانوں کے عمومی چندے اور تعاون سے ان کی تنخواہ کا نظم کرنا چاہیے۔

    (۲) اگر بالفرض حکومت کی امداد قبول کر لی گئی، تو حکومت کی رقم جس مد کے لیے آئے گی، شرعا اُس رقم کو اسی مد میں خرچ کرنا لازم ہوگا۔اگر حکومت کی رقم ائمہ اور موٴذنین کے لیے آئے گی، تو اسی میں رقم خرچ کرنا لازم ہوگا۔اس رقم کو روک کر کسی اور مصرف میں استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہوگا؛ البتہ عمومی چندہ کی رقم جس میں چندہ دہندگان کی طرف سے کسی خاص مصرف کی تعیین نہ کی گئی ہو، اس کو متولی یا منتظمہ کمیٹی مصالح مسجد میں کہیں بھی استعمال کر سکتی ہے۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند