• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 11954

    عنوان:

    صوبہ مہاراشٹر کا آخری ضلع گھرچیرولی اوراس ضلع گھرچیرولی کی تحصیل اٹاپلی ہے۔ یہ پورا علاقہ دین کے اعتبار سے بچھڑا علاقہ۔ اس علاقہ کی تحصیل اٹاپلی نکسل وادی علاقہ ہے۔ دو دین سے بہت دور ہے۔ اس بستی اٹاپلی میں ایک مسجد ہے، جس کے اطراف میں صرف ۲/ مسلمانوں کے گھر آباد ہیں، پہلے سے اس مسجد میں نمازی کم تھے اور اس مسجد کو آباد رکھنے کی محنت وکوشش بھی کی جاتی تھی، مگر کچھ روز پہلے اس مسجد میں ایک حادثہ ہوگیا کہ ایک مسلمان مسجد میں خودکشی کرکے مرگیا اب اس حادثہ کے بعد لوگ جو مسجد میں آکر نماز پڑھتے تھے، اب ڈر رہے ہیں کوئی مسجد میں نماز کے لیے آنے کو تیار نہیں، کوئی امام بھی کہیں موٴذن بھی نہیں، پہلے کبھی جماعت آکر ٹھہرتی تہی، اب اس حادثہ کے بعد کوئی ٹھہرنے کے لیے تیار نہیں، اس بستی کے مسلمان جہاں آباد ہیں وہ جگہ اس مسجد سے ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے، اس مسجد میں اس وقت اذان بھی نہیں ہوتی، مسجد ویران ہوجائے گی، اس کا پورا اندیشہ ہے، اس وجہ سے بستی والوں کا یہ کہنا ہے کہ جہاں مسلمان آباد ہیں، وہاں مسجد بنوائی جائے، اور اس مسجد کو مکتب مدرسہ یا عیدگاہ میں منتقل کیا جائے، یا اس کو شہید کرکے جہاں مسلمان لوگ آباد ہیں وہاں بنالی جائے اور عصر کی نماز اس میں ادا کی جائے، یا صرف اس مسجد میں جمعہ ادا کیا جائے، کیا ایسا کرنا درست ہے کہ نہیں؟ شک یہ بھی ہے کہ اس میں کچھ نہیں کرسکتے تو مسجد کے ویران ہونے کا پورا خطرہ ہے، محنت بھی کی گئی کہ اس کو آباد رکھا جائے، مگر حادثہ ہونے کے بعد تو کوئی مسجد میں آنے کو تیار نہیں، اس وقت عشاء فجر کی اذان بھی کہیں نہیں ہوتی جہاں مسلم آبادی ہے ، وہ دیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، جو دین سے دور ہیں۔ ایسی صورت حال میں آپ حضرات اس کی کوئی بہتر صورت ہوسکتی ہو تو نکالیں اور برائے کرم اس مسئلہ کا بہترین حل شریعت کی روشنی میں مدلل محقق تاکہ ہم پوری بستی والوں کے سامنے رکھیں، جلدی سے جواب مرحمت فرمادیں، دعاء فرماویں کہ اللہ تعالیٰ سب کو دین کی صحیح سمجھ نصیب فرماویں، آپ حضرات اپنی دعواتِ صالحہ میں ہمیں یاد فرمائیں۔

    سوال:

    صوبہ مہاراشٹر کا آخری ضلع گھرچیرولی اوراس ضلع گھرچیرولی کی تحصیل اٹاپلی ہے۔ یہ پورا علاقہ دین کے اعتبار سے بچھڑا علاقہ۔ اس علاقہ کی تحصیل اٹاپلی نکسل وادی علاقہ ہے۔ دو دین سے بہت دور ہے۔ اس بستی اٹاپلی میں ایک مسجد ہے، جس کے اطراف میں صرف ۲/ مسلمانوں کے گھر آباد ہیں، پہلے سے اس مسجد میں نمازی کم تھے اور اس مسجد کو آباد رکھنے کی محنت وکوشش بھی کی جاتی تھی، مگر کچھ روز پہلے اس مسجد میں ایک حادثہ ہوگیا کہ ایک مسلمان مسجد میں خودکشی کرکے مرگیا اب اس حادثہ کے بعد لوگ جو مسجد میں آکر نماز پڑھتے تھے، اب ڈر رہے ہیں کوئی مسجد میں نماز کے لیے آنے کو تیار نہیں، کوئی امام بھی کہیں موٴذن بھی نہیں، پہلے کبھی جماعت آکر ٹھہرتی تہی، اب اس حادثہ کے بعد کوئی ٹھہرنے کے لیے تیار نہیں، اس بستی کے مسلمان جہاں آباد ہیں وہ جگہ اس مسجد سے ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے، اس مسجد میں اس وقت اذان بھی نہیں ہوتی، مسجد ویران ہوجائے گی، اس کا پورا اندیشہ ہے، اس وجہ سے بستی والوں کا یہ کہنا ہے کہ جہاں مسلمان آباد ہیں، وہاں مسجد بنوائی جائے، اور اس مسجد کو مکتب مدرسہ یا عیدگاہ میں منتقل کیا جائے، یا اس کو شہید کرکے جہاں مسلمان لوگ آباد ہیں وہاں بنالی جائے اور عصر کی نماز اس میں ادا کی جائے، یا صرف اس مسجد میں جمعہ ادا کیا جائے، کیا ایسا کرنا درست ہے کہ نہیں؟ شک یہ بھی ہے کہ اس میں کچھ نہیں کرسکتے تو مسجد کے ویران ہونے کا پورا خطرہ ہے، محنت بھی کی گئی کہ اس کو آباد رکھا جائے، مگر حادثہ ہونے کے بعد تو کوئی مسجد میں آنے کو تیار نہیں، اس وقت عشاء فجر کی اذان بھی کہیں نہیں ہوتی جہاں مسلم آبادی ہے ، وہ دیڑھ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، جو دین سے دور ہیں۔ ایسی صورت حال میں آپ حضرات اس کی کوئی بہتر صورت ہوسکتی ہو تو نکالیں اور برائے کرم اس مسئلہ کا بہترین حل شریعت کی روشنی میں مدلل محقق تاکہ ہم پوری بستی والوں کے سامنے رکھیں، جلدی سے جواب مرحمت فرمادیں، دعاء فرماویں کہ اللہ تعالیٰ سب کو دین کی صحیح سمجھ نصیب فرماویں، آپ حضرات اپنی دعواتِ صالحہ میں ہمیں یاد فرمائیں۔

    جواب نمبر: 11954

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 515=472/ب

     

    اگر کسی مسلمان نے غلطی کی کہ وہ خودکشی کرکے مسجد میں مرگیا تو مسلمان مسجد ہی جانے سے ڈرنے لگے اور وہم کے شکار ہوگئے۔ مسلمان وہمی نہیں ہوا کرتا۔ ہمت کرکے مسجد میں جانا چاہیے اور اس کو آباد کرنا چاہیے۔ آپ لوگ اللہ کے گھر کو آباد کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو آباد کرے گا، اگر ممکن ہو تو مسجد کے آس پاس مسلمانوں کو بلاکر آباد کریں۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو اور مسجد کے دور ہونے کی وجہ سے اسے آباد نہیں کرسکتے ہیں تو پھر اس مسجد کو برائے حفاظت بند کرکے رکھیں اور پھر اس کے آس پاس مسلم آبادی کا انتظار کریں۔ مسجد کو شہید کرنا جائز نہیں۔ اگر ظہر وعصر کی نماز پڑھ لیا کریں تو بھی ویران چھوڑنے سے بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند