• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 11315

    عنوان:

    ہماری مسجد کی حد میں کچھ دکانیں ہیں۔ کمیٹی ممبر ان نے ان کو مسلمان بھائیوں کو کرایہ پر دی ہیں۔ او رکمیٹی کچھ رقم بطور رینٹل ڈپوزٹ کے لیتی ہے، جب کرایہ دار دکان خالی کرتاہے تو اس کو ڈپوزٹ واپس کردیا جاتاہے۔ کمیٹی ڈپوزٹ کی رقم بینک میں رکھتی تھی، اس لیے ہمیں ہر چھ ماہ میں بینک سے سود ملتا ہے۔اس لیے میرا سوال ہے کہ (۱)کیا ہم سود کا پیسہ نکال کرکے اس کو بیت المال کے فنڈ میں منتقل کرسکتے ہیں؟ (۲)کیا ہم میونسپل ٹیکس (دکانوں کا پراپرٹی ٹیکس) سود کی رقم سے اداکرسکتے ہیں؟ (۳)کیا ہم سود کی رقم مسجد کی پراپرٹی کی دیکھ بھال کرنے والے وکیل کو دے سکتے ہیں؟ (۴)کیا ہم سود کی رقم استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں، اگر استعمال کرسکتے ہیں تو ہمیں سود کی رقم کہاں استعمال کرنی چاہیے؟ اگر استعمال نہیں کرسکتے ہیں تو ہمیں سود کی رقم کو کیا کرنا چاہیے؟

    سوال:

    ہماری مسجد کی حد میں کچھ دکانیں ہیں۔ کمیٹی ممبر ان نے ان کو مسلمان بھائیوں کو کرایہ پر دی ہیں۔ او رکمیٹی کچھ رقم بطور رینٹل ڈپوزٹ کے لیتی ہے، جب کرایہ دار دکان خالی کرتاہے تو اس کو ڈپوزٹ واپس کردیا جاتاہے۔ کمیٹی ڈپوزٹ کی رقم بینک میں رکھتی تھی، اس لیے ہمیں ہر چھ ماہ میں بینک سے سود ملتا ہے۔اس لیے میرا سوال ہے کہ (۱)کیا ہم سود کا پیسہ نکال کرکے اس کو بیت المال کے فنڈ میں منتقل کرسکتے ہیں؟ (۲)کیا ہم میونسپل ٹیکس (دکانوں کا پراپرٹی ٹیکس) سود کی رقم سے اداکرسکتے ہیں؟ (۳)کیا ہم سود کی رقم مسجد کی پراپرٹی کی دیکھ بھال کرنے والے وکیل کو دے سکتے ہیں؟ (۴)کیا ہم سود کی رقم استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں، اگر استعمال کرسکتے ہیں تو ہمیں سود کی رقم کہاں استعمال کرنی چاہیے؟ اگر استعمال نہیں کرسکتے ہیں تو ہمیں سود کی رقم کو کیا کرنا چاہیے؟

    جواب نمبر: 11315

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 656=449/ھ

     

    (۱) نہیں کرسکتے۔ (۲) جائز نہیں۔ (۳) آپ اپنے اوپر یا اپنے اہل وعیال پر صرف نہیں کرسکتے، نہ مسجد میں صر ف کرنا سودی رقم کا جائز ہے، سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ بینک سے نکال کر وبال سے بچنے کی نیت کرکے غرباء فقراء مساکین محتاجوں کو دیدینی چاہیے، غیرشرعی غیرواجبی ٹیکس جیسے انکم ٹیکس سیل ٹیک میں دیدینے کی بھی گنجائش ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند