• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 64248

    عنوان: قراء توں کا اختلاف امر مُحدَث نہیں ہے

    سوال: اختلاف قراء ت کے بارے میں علما کیا فرماتے ہیں مندرجہ ذیل مسائل میں۔ (۱) لہجوں کا اختلاف تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن بعض مقامات پر الفاظ اور معانی بھی بدل جاتے ہیں جیسے سورہ یوسف میں یرتع ویلعب کی ایک قرئت وترتع وتلعب ھے بقول ابن کثیررح اسی طرح کزبو سورہ یوسف آیت 50 میں یے اسے حضرت عائشہ رض شد کیساتھ پڑھنے کو سختی سے کہا کرتیں تو سوال یہ ھے کیا یہ قراء تیں حضور ص سے ثابت ہیں؟ ایک قرئت کو دوسری پر ترجیح کی کیا وجہ ہے ؟ مذاہب اربعہ میں سب قرئتیں ہیں یا وہاں بھی کسی ایک کو کسی ایک پر ترجیح ہے ؟جواب اگر جلد عنایت فرمادیں تو نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 64248

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 582-582/M=7/1437 قراء توں کا اختلاف امر مُحدَث نہیں ہے، بلکہ حدیث سے ثابت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھ کو ایک حرف پر قرآن پڑھایا، میں نے ان سے زیادتی کا سوال کیا، اور برابر کرتا رہا وہ بھی زیادتی کرتے رہے یہاں تک کہ سات طریقہ پر پڑھنے کی اجازت مل گئی، أن ابن عباس حدّثہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أقرأني جبریل علی حرف فراجعتہ فلم أزل استزیدہ ویزیدني حتی انتہی إلی سبعة أحرف ․ (بخاری) ایک قراء ت کو دوسری پر ترجیح کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں، اسباب ترجیح کی تفصیل فنّ قراء ت وتجوید کی کتابوں میں موجود ہے، قرّاء کرام سے اس بابت رجوع کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند