• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 6410

    عنوان:

    میں نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو پیس ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ قرآن کریم کو چھونے اور تلاوت کرنے کے لیے وضو ضروری نہیں ہی، لیکن اگر ہم قرآ ن چھونے سے پہلے وضو کرلیں تو یہ اچھا ہے۔ اس نے مزید کہا : قرآن چھونے اور تلاوت کرنے سے پہلے وضوکے ضروری ہونے کے بارے میں کہیں مذکور نہیں ہے۔ مجھی حدیث اور سنت کی روشنی سے اس ضمن میں علمائے کرام کی رائے بتائیں۔

    سوال:

    میں نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو پیس ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ قرآن کریم کو چھونے اور تلاوت کرنے کے لیے وضو ضروری نہیں ہی، لیکن اگر ہم قرآ ن چھونے سے پہلے وضو کرلیں تو یہ اچھا ہے۔ اس نے مزید کہا : قرآن چھونے اور تلاوت کرنے سے پہلے وضوکے ضروری ہونے کے بارے میں کہیں مذکور نہیں ہے۔ مجھی حدیث اور سنت کی روشنی سے اس ضمن میں علمائے کرام کی رائے بتائیں۔

    جواب نمبر: 6410

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 986=895/ ب

     

    جمہور امت اور ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن چھونے کے لیے طہارت شرط ہے۔ ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا باوضو ہونا اور جنابت نہ ہونا، یہ سب طہارت میں شامل ہے، جمہور کی دلیل وہ حدیث ہے جو مضبوط روایات کے ساتھ حضور -صلی اللہ علیہ وسلم- سے منقول ہے کہ آپ نے عمر بن حزم کو خط لکھا جس میں یہ تھا: أنہ کتب لعمر بن حزم: لا یمسّ القرآن إلاَّ طاہر (احکام القرآن للمفتی محمد شفیع) کہ اس قرآن کو پاک (باوضو) ہی چھوسکتا ہے۔ نیز وہ حدیث بھی دلیل ہے جس میں عمر کے اسلام لانے کا واقعہ مذکور ہے اس میں ہے: فقال لأختہ أعطوني الکتاب الذي کنتم تقروٴون فقالت إنک رجس وإنہ لا یمسہ إلا المطھرون فقم فاغتسل أو توضأ فتوضأ فأخذ الکتاب فقرأہ (أحکام القرآن للجصاص) کہ حضرت عمر نے اپنی بہن سے قرآن مانگا۔ بہن نے کہا کہ تم ناپاک ہو، قرآن کو تو پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں، لہٰذا جاوٴ غسل کرو یا وضو کرو! حضرت عمر نے وضو کیا پھر قرآن لے کر پڑھا۔ نیز حضرت سعد سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو بے وضو قرآن چھونے سے منع کیا، حضرت ابن عمر سے بھی اسی کے مثل منقول ہے۔ (احکام القرآن للجصاص) ان احادیث اور آثار کی وجہ سے اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ بے پاکی (بلاوضو) کے قرآن چھونا جائز نہیں۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ ممانعت، حدیث کے علاوہ قرآن سے بھی ثابت ہے یا نہیں؟ ایک جماعت کہتی ہے کہ قرآن سے اس کا ثبوت نہیں۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ قرآن سے بھی ممانعت ثابت ہے اور آیت کریمہ لاَ یَمَسُّہُ اِلاَّ الْمُطَہَّرُوْنَ میں اسی ممانعت کا بیان ہے، اور دلائل کی رو سے یہی قول راجح ہے۔

    ڈاکٹر ذاکر نائک نے قرآن و حدیث کے علوم میں مطلوبہ استعداد کے بغیر ہی اجتہاد کرنے کا جو طریقہ قائم کیا ہے، اس کے نتیجے میں اگر وہ صحیح راہ سے ہٹ جائیں اور جمہور امت کی خلاف ورزی کربیٹھیں تو کچھ عجب نہیں۔ انھوں نے آزادانہ اجتہاد کا جو طریقہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی گمراہ کن ہے، لہٰذا ان کی باتوں میں نہ آیا جائے۔ سلف کا طریقہ پرامن اور بے غبار ہے، اسی کی اتباع کی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند