• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 165675

    عنوان: کفار کو چیلنج کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اپنے کو مستثنیٰ کیوں کیا؟

    سوال: وَ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہ وَ ادْعُوْا شُہَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ﴿سورة بقرة آیت نمبر 23﴾ ترجمہ۔ ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اُتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچّے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالٰی کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو ۔ اوپر بیان کردہ آیت میں کفار مکہ کو چیلنج دیا جا رہاہے کہ اگر تم اس قرآن پاک کو اللہ کا کلام نہیں مانتے ہو تو تم اللہ تعالی کو چھوڑ کر اپنے سب مددگاروں کو بلا لو اور سب ملکر ایک سورة ہی بنا کر دکھا دو۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی کفار کو چیلنج دے رہے ہیں تو پھر انہیں یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ "میرے سوا" اپنے سارے مددگار بلا لو ۔ صرف یہ بھی تو کہا جا سکتا تھا کہ اپنے سارے مددگار بلا لو ۔ مہربانی فرما کر اس بات کی تشریح کر دیجئے کہ اس آیت میں "میرے سوا" کا کیا مطلب ہے ؟

    جواب نمبر: 165675

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 131-256/H=3/1440

    اگر تم کو اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے تو تم (نے اللہ پاک کو چھوڑ کر جو اپنے مددگار و حمایتی تجویز کر رکھے ہیں) ان سب مددگاروں یعنی حماییتوں کو بلالو اھ تفصیل کے لئے بیان القرآن میں آیت مبارکہ کی تفسیر ملاحظہ کریں الغرض کفار کی حالت واقعیہ کو ملحوظ فرماکر اللہ پاک نے اپنی ذات مقدسہ کا ذکر فرمایا ہے نیز اس انداز بیان میں ترغیب و تشویق بھی ہے کہ جب اپنے شرکاء اور مددگاروں کا اور اپنا عجز ان پر واضح ہوگا تو دلوں میں یہ مضمون جمے گا کہ ان مددگاروں سے مدد لینے کے بجائے اللہ پاک جل شانہ سے ہی تمام امور میں مدد طلب کرنا چاہئے جب ایک سورت بنانے میں سب کا عاجز ہونا ظاہر ہوگیا تو بقیہ امور میں یہ ہماری کیا خاک مدد کریں گے پس اسی ذات پر ایمان لانا چاہئے کہ جس عجز کا نام کو بھی نہ ہو والغیب عند اللہ تعالیٰ ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند