• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 158455

    عنوان: اعجاز قرآن

    سوال: وَإِن کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَیٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُوا شُہَدَائَکُم مِّن دُونِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ (سورة البقرة آیة ۳۲)۔ جی حضرت میرا سوال یہ ہے کہ یہاں قرآن الکریم کی کیا مراد ہے (فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہِ) سے چوکہ جن سے یہ بات کہی جارہی ہے جن کو اللہ چیلینج کر رہا ہے وہ تو عربی ہیں تو ان کے سامنے کیا مشکل تھی جو وہ اس جیسی ایک سورت بنانے میں ناکام رہے عربی ان کی مادری زبان تھی پھر کس چیز نے انہیں روکا ہوا تھا؟ کیا قرآن ے کریم کے ضوابط الصرف والنحو سے بہی الگ ہیں۔ اس اشکال کا مفصّل جواب مطلوب ہے ۔

    جواب نمبر: 158455

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 541-64/D=5/1439

    معجزہ کا ظہور اللہ کے حکم سے بطور خرق عادت ہوتا ہے اور اس کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ نبی کی نبوت پر دلیل اور انسانی قدرت سے باہر ہوتا ہے، قرآن کی شان بھی یہی ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت کے واسطے دلیل وحجت کے عطا کیا گیا جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی طاقت عاجز ہے؛ اس لیے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرار دیا گیا جو رہتی دنیا تک کی خلقت کو اپنے لانے والے کی صداقت کا یقین کراتا رہے گا اور اس کے ذریعہ لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے رہیں گے؛ لیکن چودہ سو سال قبل جاہلیت سے متأثر دین کے باغی اور فطرت انسانی سے منھ موڑنے والوں نے تکذیب کو اپنا وطیرہ بناکر اس معجزہ سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کیں جس پر قرآن نے انھیں مرحلہ وار تین قسطوں میں چیلنج کیا کہ اگر اس کلام کی حقانیت میں شبہ ہے یہ ”کلامِ الٰہی“ نہیں تو اس جیسا کلام پیش کرکے دکھاوٴ، نہیں تو دس سورتیں یا پھر ایک چھوٹی یا بڑی سورت ہی بناوٴلا؛ لیکن فصاحت وبلاغت کے سورما شعر وادب میں طولِ باع رکھنے والوں نے جب قرآن کی اعلیٰ درجہ کی فصاحت وبلاغت (حسن بیان) اوراس کے الفاظ، ترکیب، اسلوب اور نظم کے بے مثال اعجاز کو دیکھا تو اپنی بے بسی کی وجہ سے اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے، اور یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ یہ کلام الٰہی نہیں؛ بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے گھڑکر لوگوں کو تھوڑا تھوڑا سناتے ہیں اور اس کے ذریعہ اپنے نئے دین کے جال میں پھنساتے ہیں، اگر یہ کلام الٰہی ہوتا تو ”توریت وانجیل“ کی طرح یکبارگی اترتا۔ پھر قرآن نے یہ اعلان کیا: ”وَإِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ الخ“ یعنی اگر تمھیں یہ شبہ ہے کہ یہ کلام الٰہی نہیں؛ بلکہ کلام بشر ہے تو تم بھی بشر ہو اس جیسی ایک ہی سورت بناکر پیش کردو؛ لیکن اس پر بھی سکوت طاری رہا اور کوئی قرآن کے مقابلہ میں ایک آیت بھی نہ لاسکا، اور اس کی نظیر پیش کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کی وہ وجہ اعجاز جس کی وجہ سے کفارِ عرب اس چیلنج کے مقابلہ سے عاجز رہے اور آج تک اس کے مقابلہ پر کوئی نہ آسکا، اس میں اکثر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ وہ قرآن کی اعلیٰ درجہ کی فصاحت وبلاغت ہے (حسن بیان)؛ اس لیے کہ قرآن اپنے مخاطب کو (خواہ وہ سننے والا ہو یا پڑھنے والا اور خواہ وہ عربی سے واقفیت رکھتا ہو یا عربی کے الف وبا سے بھی واقف نہ ہو) اس طرح موہ لیتا ہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ”واللہ إنہ لیقولہ الذي یقول حلاوة وإن علیہ لطلاوة وإنہ لیعلو ولا یعلی“ (خدا کی قسم جو یہ کلام پڑھتا ہے اس میں بلا کی شیرینی ہے اور رونق ہے اور یہ کلام غالب ہی رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا)

    نوٹ: اس سلسلہ میں مزید واقفیت کے لیے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی کتاب ”علوم القرآن“ (باب ہفتم: حقانیت قرآن) کا بغور مطالعہ فرمالیں ان شاء اللہ مزید بات منقح ہوجائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند