• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 155191

    عنوان: بصیرت کا مطلب

    سوال: قابلِ احترام علماء کرام۔ بندہ کو مندرجہ ذیل آیت کے بارے میں ایک سوال تھا۔ (۱۰۸ قُلْ ہَٰذِہِ سَبِیلِیٓ أَدْعُوٓاْ إِلَی للَّہِ عَلَیٰ بَصِیرَةٍ أَنَا وَمَنِ تَّبَعَنِی وَسُبْحَٰنَ للَّہِ وَمَآ أَنَا مِنَ لْمُشْرِکِینَ (یوسف اس آیت میں اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو اطلاع دیں کہ آپ کا اور آپ کے متبعین کا راستہ بصیرت کے ساتھ دعوت الی اللہ دینا ہے ۔ بصیرت کے معنی علماء کرام نے یہ بیان فرمائے ہیں کہ قلبی بینائی یا معرفت سے آسمانوں، زمین اور نفوس میں پھیلی ہوئی اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں غور کرنے سے اللہ تعالٰی کی توحید کا کامل یقین پیدا ہوتا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حالاتِ زندگی میں غور کرنے سے ، کہ ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم باوجود کسی سے تعلیم حاصل نہ کرنے کے محض اللہ تعالٰی کی وحی سے فصیح و بلیغ کلام کے ذریعے غیب کی خبریں بیان فرماتے ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم صداقت و امانت، اعلٰی اخلاق اور کریمانہ کردار کے حامل ہیں، اس سب سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے ۔ اسی یقین کے ساتھ دوسروں کو اللہ تعالٰی کی طرف دعوت دینا چاہئے ۔ بندہ ایک اور معنی عرض کرنے کی جرأت کرتا ہے ۔ پوری سورتِ یوسف پڑھنے اور غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سورت میں نہ جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے ، نہ جہنم کی سزاوٴں کا ذکر ہے ، نہ قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہے اور نہ ہی آفاق و انفس میں پھیلی نشانیوں کا ذکر ہے بلکہ پوری سورت میں ایک قصہ بیان ہوا ہے جس کی تمہید میں چند آیات ہیں اور اختتام پر چند آیات ہیں۔ اور اللہ تعالٰی نے اس قصہ کو احسن القصص قرار دیا ہے جس کی ایک وجہ علماء کرام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس قصہ میں ہر شخص کا انجام سعادت والا ہوتا ہے ۔ (وقیل کانت أحسن القصص لأن کل من ذکر فیہا کان مآلہ الی السعادة (تفسیر البحر المحیط اس سورت میں اگر بندہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کردار پر غور کرے تو اُسے داعیانہ کردار کا حامل ایک نمونہ نظر آتا ہے جو ہر شخص سے اس انداز میں معاملہ فرماتے ہیں کہ اپنا تعلق بھی اللہ تعالٰی سے مضبوط رہے اور جس سے معاملہ فرما رہے ہیں اُس کا تعلق بھی اللہ تعالٰی سے جڑ جائے ، چاہے اس تعلق کے جڑنے میں کچھ زیادہ وقت بھی لگ جائے ۔ اس کی روشنی میں شاید یہ مفہوم اخذ کرنا قابلِ موٴاخذہ نہ ہو کہ دعوت الی اللہ کی محنت میں داعی کو لوگوں کی استعداد پر نظر رکھ کر دور اندیشی کے ساتھ محنت کرنی چاہئے ، اس امید کے ساتھ کہ جن پر محنت کی جا رہی ہے وہ ایک نہ ایک دن قبول کر لیں گے ، اور اس طریقہ سے کہ لوگوں میں دین کی محبت پیدا ہو اور وہ دین کی خوبصورت و پرکشش زندگی کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ کیا یہ استدلال درست ہے ؟ جزاکم اللہ خیرا۔

    جواب نمبر: 155191

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:55-45/N=2/1439

     آپ نے جو بات تحریر فرمائی ہے، وہ فی نفسہ درست ہے؛ البتہ اسے آیت کریمہ کا مدلول قرار دینا صحیح نہیں؛ بلکہ آیت کریمہ میں بصیرت کا مطلب وہی ہے جو حضرات مفسرین نے تحریر فرمایا ہے؛ کیوں کہ حضرت یوسف علی نبیناوعلیہ الصلاة والسلام کا قصہ اوپر چند آیات قبل مکمل ہوچکا ہے اور اوپر چند آیات سے شرک کی تردید کا مضمون چل رہا ہے اور سورہ یوسف میں اگرچہ آفاقی اور انفسی دلائل کا تذکرہ نہیں ہے؛ لیکن دور نبوت میں اس سے پہلے آفاقی وانفسی دلائل پر مشتمل بہت سی سورتیں نازل ہوچکی تھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند