• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 150604

    عنوان: كان الناس امۃ واحدۃ كا ترجمہ

    سوال: قرآن مجید و احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو اپنے آپ کو عالم دین کہتا ہے لیکن سورة بقرةکی آیت 213 کوتین حصوں میں تقسیم کرکے اس کے پہلے حصے کان الناس امة واحدة؛ کا ترجمہ اسطرح کرتا ہے کہ ;تمام انسان ایک ہی امت ہے ؛ کیا یہ تحریف معنوی ہے یا نہیں اور یہ گمراہی ہے یا نہیں اور ایسے عقیدے کی پرچار از روئے شریعت باعث ثواب ہے یا عذاب؟ بینوا و توجروا رحمکم اللہ

    جواب نمبر: 150604

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 967-926/M=8/1438

    سورہٴ بقرہ آیت نمبر ۲۱۳کے ابتدائی حصے کا ترجمہ اس طرح ہے: ”سب لوگ ایک دین پر تھے“ یعنی کسی زمانہ میں تمام انسان ایک ہی مذہب وملت اور ایک ہی عقیدہ وخیال پر تھے پھر ان میں مختلف عقائد وخیالات پیدا ہوگئے، رہی بات کہ وہ کونسا زمانہ ہے جس میں تمام افراد انسانی ایک ہی عقیدہ ومسلک پر تھے تو اس بابت اقوال مختلف ہیں: مفسرین صحابہرضي الله عنهم  میں سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور ابن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ زمانہ عالم ازل کا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ وحدتِ عقیدہ کا واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ آدم علیہ السلام مع اپنی زوجہ محترمہ کے دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی اولاد ہوئی اور پھیلتی گئی وہ سب کے سب حضرت آدم علیہ ا لسلام کے دین کے تابع اور توحید کے قائل تھے اور بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ یہ زمانہ وہ ہے جب کہ نوح علیہ السلام کی بددعا سے دنیا میں طوفان آیا، طوفان ختم ہونے کے بعد جتنے لوگ اس دنیا میں رہے وہ سب مسلمان موحد اور دین حق کے پیرو تھے․․․ (مستفاد معارف القرآن : ۱/۴۴۷تا ۴۴۹)

    صورت مسئولہ میں آپ نے جس عالم کے حوالہ سے بات نقل کی ہے وہ کون اور کس خیال کے ہیں اور انھوں نے مذکورہ آیت کا ترجمہ وہی کیا جو سوال میں ہے، تو اس سے ان کی مراد کیا ہے؟ یعنی وہ اس کی تفسیر وتشریح کیا بیان کرتے ہیں؟ انھوں نے دورانِ تقریر آیت کا ترجمہ بتایا یا باضابطہ وہ قرآن کی تفسیر کررہے تھے؟ جب تک پوری صحیح صورت حال واضح نہ ہو اس بابت کچھ لکھنے سے معذرت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند