• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 10889

    عنوان:

    میں رمضان المبارک کی تراویح کے متعلق کچھ مسئلہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ (۱)رمضان کی تراویح سنانے کے لیے حافظ صاحب کو ہدیہ (یعنی روپیہ) دینا کیا صحیح ہے؟ (۲)جو حافظ ہدیہ یعنی روپیہ لے کر تراویح سنائے کیا اس حافظ کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے؟ (۳)رمضان کی تراویح سنانے کے لیے حافظ صاحب کو جو ہدیہ دیا جاتا ہے کیا اس کے لیے چندہ دینا صحیح ہے؟ (۴)کسی حافظ کا تراویح سنانے کے لیے ہدیہ یعنی روپیہ کی مانگ کرنا یا طے کرنا صحیح ہے؟ (۵)کسی حافظ کو اگر باہر یعنی دوسرے شہر سے تراویح سنانے کے لیے بلایا جائے تو انھیں طعام و قیام او رہاتھ خرچ سفر خرچ کے علاوہ روپیہ دینا صحیح ہے؟ (۶)اگر قرآن سنانے کی اجرت لینا حرام ہے تو علماء کا یا عوام کا اس مسئلہ پر خاموش رہنا اور یہ کہنا کہ جو چل رہا ہے اسے چلنے دو کیا صحیح ہے؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان سوالات کا جواب جلد سے جلد تحریر فرمانے کی تکلیف کریں۔

    سوال:

    میں رمضان المبارک کی تراویح کے متعلق کچھ مسئلہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ (۱)رمضان کی تراویح سنانے کے لیے حافظ صاحب کو ہدیہ (یعنی روپیہ) دینا کیا صحیح ہے؟ (۲)جو حافظ ہدیہ یعنی روپیہ لے کر تراویح سنائے کیا اس حافظ کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے؟ (۳)رمضان کی تراویح سنانے کے لیے حافظ صاحب کو جو ہدیہ دیا جاتا ہے کیا اس کے لیے چندہ دینا صحیح ہے؟ (۴)کسی حافظ کا تراویح سنانے کے لیے ہدیہ یعنی روپیہ کی مانگ کرنا یا طے کرنا صحیح ہے؟ (۵)کسی حافظ کو اگر باہر یعنی دوسرے شہر سے تراویح سنانے کے لیے بلایا جائے تو انھیں طعام و قیام او رہاتھ خرچ سفر خرچ کے علاوہ روپیہ دینا صحیح ہے؟ (۶)اگر قرآن سنانے کی اجرت لینا حرام ہے تو علماء کا یا عوام کا اس مسئلہ پر خاموش رہنا اور یہ کہنا کہ جو چل رہا ہے اسے چلنے دو کیا صحیح ہے؟ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان سوالات کا جواب جلد سے جلد تحریر فرمانے کی تکلیف کریں۔

    جواب نمبر: 10889

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 316=247/ھ

     

    (۱) صحیح نہیں بلکہ حرام ہے۔ (۲) مکروہ ہے۔ (۳) نہیں۔ (۴) نہیں۔ (۵) ہاتھ خرچ سے کیا مراد ہے؟ باقی امور کا حکم نمبر (۱) کے تحت آگیا۔ (۶) علمائے کرام بااثر حضرات کا خاموش رہنا بھی درست نہیں، بلکہ حتی المقدرت حکمت کے ساتھ اصلاح کی سعی کرنا واجب ہے اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ ]جو چل رہا ہے اسے چلنے دو[ اِن جیسے امور سے تو مفاسد اور خرابیاں بڑھتی رہیں گے اور جب پانی سر سے اوپر ہوجائے گا تو اصلاح کی توقع بھی نہ رہے گی اور یہ صورت حال قوم وملت کے حق میں خطرناک ہے، البتہ اگر کہیں بولنے سے فتنہ کا اندیشہ ہو یا ناقابل برداشت تکلیف کا خطرہ ہو اور سکوت اختیار کرلیا جائے تو ممکن ہے گنجائش نکل آئے مگر علی الاطلاق خاموشی درست نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند