متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 68747
جواب نمبر: 68747
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 784-150/D=10/1437 خواہش اور تمنا اتنی بلند کہ ”میں اللہ سے ایمان کی حالت میں ملنا چاہتا ہوں“ او رہمت و حوصلہ اس قدر پست کہ ناامیدی کے دہانے پر کھڑے خودکشی کے وساوس سے بے بس۔ بیعت ہونا کافی نہیں ہے کسی مصلح پر اعتقاد کرکے جیسا وہ بتائے اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ طبیب نفسانی علاج کرنے کے لئے کیوں نہیں تیار ہے؟ آپ نے علاج کرانے میں بھی پس ہمتی دکھلائی ہوگی۔ یہ آپ نے کیسے طے کرلیا کہ اس کا علاج نہیں ہے اور اپنے کو خواہشات پر قابو پانے سے معذور سمجھنا یہ سب ناامیدی اور پست ہمتی کی باتیں ہیں طالب راہ حق کو تو ہر مشکل برداشت کرنے کی ہمت رکھنی چاہئے ”اس کا علاج نہیں ہے“ یہ بات آپ نے غلط کہی اور اللہ تعالی سے بدگمانی کیا تنہائی میں اسے سوچئے کہ کس قدر غلط بات آپ نے کہی ہے آپ بہت بڑے ڈاکڑ یا حکیم نہیں ہیں کہ ایسے فیصلے صادر کرنے لگے، توبہ کیجئے بار بار توبہ کیجئے۔ اگلی تحریر میں اس توبہ کی اطلاع کیجئے، حدود مقرر کرنا آپ کا کام نہیں ہے شریعت کا کام ہے، حدود سے کیامراد ہے؟ سزا یا ہم جنسی کے عمل کی حد جو آپ کے لئے مباح ہوجائے۔ اگر علاج کرانا چاہتے ہیں تو اگلی تحریر میں اس تحریر کا حوالہ دے دیجئے گا۔ اور تین باتیں تحریر کیجئے: (۱) اوپر جس بات سے توبہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے دو رکعت نفل پڑھ کر توبہ کرکے ہمیں اطلاع کیجئے۔ اور اپنی حرکت پر نادم او رثابت رہئے اور یہ طے کر لیجئے کہ دم نکل جائے مگر علاج کراکر ہی رہیں گے۔ (۲) حدود سے کیا مراد ہے اسے واضح کیجئے۔ (۳) آپ کا مشغلہ کیا ہے؟ عمر کیا ہے؟ اور شادی ہوئی ہے یا نہیں؟ نوٹ: اگلے ای میل پر راقم الحروف کا نام (مفتی زین الاسلام) لکھ دیجئے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند