• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 63110

    عنوان: آداب شیخ کے تعلق سے غلط تاویلات

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ہمارے علاقے یوپی، اعظم گڈھ میں ایک معروف ”پیر“ اپنی دوکان چمکانے کے لئے ”آداب شیخ“ کے نام پر مندرجہ ذیل اشتہار کا سہارا لیتے ، اور اپنے مریدین کے درمیان خوب اسکا پرچار کرتے ہیں، جو بظاہر روح اسلام کے خلاف نظر آتا ہے ، اشتہار کے 30 مندرجات حسب ذیل ہیں: (۱) یہ اعتقاد کرلے کہ میرا مطلب اسی مرشد سے حاصل ہوگا اور اگر دوسری طرف توجہ کرے گا تو مرشد کے فیض و برکات سے محروم رہے گا۔ (۲) ہرطرح مرشد کا مطیع ہو اور جان و مال سے اس کی خدمت کرے؛ کیوں کہ بغیر محبت پیر کے کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے ۔ (۳) مرشد جو کہے اس کو فورا بجا لائے اور بغیر اجازت اس کے فعل کی اقتدا نہ کرے؛ کیوں کہ بعض اوقات وہ اپنے حال و مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے اور مرید کو اس کو کرنا زہر قاتل ہے۔ (۴) جو ورد و وظیفہ مرشد تعلیم کرے اسی کو پڑھے اور تمام وظیفے چھوڑ دے خواہ اس نے اپنی طرف سے پڑھنا شروع کیا ہو یا کسی دوسرے نے بتایا ہو ۔ (۵) مرشد کی موجودگی میں ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہئے، یہاں تک کہ سوائے فرض و سنت کے نماز نفل اور کوئی وظیفہ بغیر اس کی اجازت کے نہ پڑھے ۔ (۶) حتی الامکان ایسی جگہ کھڑا نہ ہو کہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر یا اس کے کپڑے پر پڑے ۔ (۷) اس کے مصلے پر پیر نہ رکھے ۔ (۸) اس کی طہارت اور وضو کی جگہ طہارت یا وضو نہ کرے ۔ (۹) مرشد کے برتنوں کو استعمال میں نہ لاوے۔ (۱۰) اس کے سامنے نہ کھانا کھائے نہ وضو کرے نہ پانی پئے؛ ہاں اجازت کے بعد مضائقہ نہیں ۔ (۱۱) اس کے روبرو کسی سے بات نہ کرے؛ بلکہ کسی کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔ (۱۲) جس جگہ مرشد بیٹھا ہو اس طرف پیر نہ پھیلائے اگر چہ سامنے نہ ہو ۔ (۱۳) اور اس کی طرف تھوکے بھی نہیں ۔ (۱۴) جو کچھ مرشد کہے یا کرے اس پر اعتراض نہ کرے؛ کیوں کہ جو کچھ وہ کہتا یا کرتا ہے الہام سے کہتا اور کرتا ہے اور اگر کوئی بات نہ سمجھ میں آوے تو حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ یاد کرے ۔ (۱۵) اپنے مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے ۔ (۱۶) اگر کوئی شبہہ دل میں گزرے تو فورا عرض کرے اور اگر وہ شبہہ حل نہ ہو تو اپنے فہم کا نقص سمجھے اور اگر اس کا مرشد کوئی جواب نہ دے تو جان لے کہ میں اس کے جواب کا لائق نہ تھا " (۱۷) خواب میں جو کچھ دیکھے وہ مرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن میں آوے تو اسے بھی عرض کردے ۔ (۱۸) بے ضرورت اور بے اذن مرشد علاحدہ نہ ہو ۔ (۱۹) مرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بآواز بلند اس سے بات نہ کرے اور بقدر ضرورت مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظر رہے۔ (۲۰) اور مرشد کے کلام کو رد نہ کرے اگر چہ حق مرید ہی کی جانب ہو؛ بلکہ یہ اعتقاد کرے کہ شیخ کی خطاء میرے صواب سے بہتر ہے ۔ (۲۱) جو کچھ اس کا حال ہو بھلا ہو یا برا اسی مرشد سے عرض کرے؛ کیوں کہ مرشد طبیب قلب ہے، اطلاع کے بعد اس کی اصلاح کرے گا مرشد کے کشف پر اعتماد کرکے سکوت نہ کرے ۔ (۲۲) اس کے پاس بیٹھ کر وظیفہ میں مشغول نہ ہو، اگر کچھ پڑھنا ضروری ہو تو اس کی نظر سے پوشیدہ بیٹھ کر پڑھے ۔ (۲۳) جو کچھ فیض باطنی اسے پہنچے اس مرشد کا طفیل سمجھے اگر چہ خواب میں یا مراقبہ میں دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا ہے تب بھی یہ جانے کی مرشد کا کوئی لطیفہ اس بزرگ کی صورت ظاہر ہوا ہے ۔ (۲۴) اس کے پاس مسواک کرکے صاف کپڑے پہن کر جاوے ۔ (۲۵) ادب کے ساتھ پیش آوے ۔ (۲۶) نگاہ حرمت و تعظیم سے اس پر نظر کرے ۔ (۲۷) جو بتلاوے اس کو خوب توجہ سے سنے ۔ (۲۸) اس کو خوب یاد رکھے ۔ (۲۹) جو بات سمجھ میں نہ آوے اپنا قصور سمجھے ۔ (۳۰) اس کے روبرو کسی اور کا قول مخالف ذکر نہ کرے ۔

    جواب نمبر: 63110

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 230-230/D=3/1437-U مذہب اسلام نے آداب کی بیشتر سے بیشتر تعلیم دی ہے، درجہ اور مرتبہ کے لحاظ سے آداب وحقوق مین بھی کمی زیادتی ہوتی ہے، آداب المعاشرت، اسلامی تعلیمات کا ایک اہم عنوان ہے، بڑوں چھوٹوں کے حقوق وآداب، بھائی چچا ماموں کے آداب والدین کے حقوق وآداب، اسی طرح جن لوگوں سے آدمی کچھ سیکھتا یا پڑھتا ہے ان کے حقوق وآداب، پھر پڑھاجانے والا علم یا سیکھا جانے والا فن، جس قدر اعلیٰ اور بلند ہوگا ویسے ہی اس کے سکھانے والے کے حقوق وآداب بھی بلند ہوں گے، اساتذہ، گُرو، شیخ کے حقوق وآداب اسی قبیل سے ہیں، یہ وہ عام باتیں ہیں جنھیں آپ بھی سمجھتے ہوں گے، اس لیے تفصیل وتمثیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ مذکورہ تمہید کے بعد آپ کے ذکرکردہ سوال سے متعلق پہلے اس شخصیت کو دیکھنا چاہیے کہ وہ حقوق وآداب کے اہل ہیں یا نہیں؟ یعنی جو صاحب دکان چمکارہے ہیں کیا وہ متبع سنت پابند شریعت ہونے کے ساتھ کسی صحیح النسبت شیخ سے اجازت یافتہ ہونے کے بعد دکانِ معرفت چمکاکر لوگوں کے دل روشن کررہے ہیں یا محض فریب دہی اور مکاری سے دنیا کماکر اپنا دل سیاہ کررہے ہیں، اس کا صحیح فیصلہ مقامی اہل صلاح اور اہل علم کی آراء سے جو ان کے بارے میں کیا جاسکتا ہے، اسی سے ان کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ آسانی کے ساتھ ہوجائے گا اور اگر آپ خود تحقیق کرنا چاہیں تو ان کی خدمت میں ۲/ ۳/ روز رہ کر شب وروز کے معمولات کا جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ معرفتِ الٰہی کی دکان چمک رہی ہے یا ظلمت نفسانی سے دل کی دکان کو آگ لگ رہی ہے۔ اگر واقعی پیر ہیں اور موافقِ سنت وشریعت لوگوں کو راہِ طریقت طے کراتے ہیں تو ان کی صحبت کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور ان سے اکتسابِ فیض میں عار اور استکبار نہیں کرنا چاہیے اور موافق شریعت ان کے حقوق وآداب میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ ان کی صحبت سے ا یمان میں رسوخ وکمال اور احکامِ شریعت میں استقامت تعلق مع اللہ میں مضبوطی پیدا ہوگی اور دنیا سے دل سرد ہوکر آخرت کی طرف مائل ہوگا۔ رہے جو حقوق وآداب اشتہار میں چھپے ہیں اولاً اس کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ یہ شیخ موصوف کے علم واطلاع کے مطابق لوگوں نے چھاپا ہے؟ یا اپنی جانب سے لوگوں نے مضمون میں افراط وتفریط کردی ہے؟ اشتہار میں ذکر کردہ آداب وحقوق میں کچھ تو عام ہیں جو شیخ کے علاوہ کسی بڑے یا استاذ وغیرہ کے ساتھ بھی برتے جاتے ہیں اور کچھ شیخ سے متعلق ہیں؛ تاکہ استفادہٴ باطنی میں یکسوئی حاصل رہے اور بعض باتیں ایسی ہیں جو موہم معلوم ہوتی ہیں ا ن کا صحیح منشا اور محمل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔اور بعض باتیں غلو پر مبنی ہیں، گمراہ کن ہوسکتی ہیں مثلاً نمبر (۶) (۱۰) (۱۴) (۲۰) ”حکیم الامت نقوش و تأثرات“ نامی کتاب جو مولانا عبد الماجد دریابادی کی تصینف ہے سے ہم ایک طویل اقتباس منسلک کررہے ہیں، ان شاء اللہ غور سے پڑھنے کے بعد آپ کے اشکالات رفع ہوجائیں گے اور اتباع وانقیاد کے سلسلے میں شیخ کا مقام واضح ہوجائے گا، پھر بھی کوئی بات رہ جائے تو دوبارہ لکھ کر معلوم کرلیں گے۔ نوٹ: اقتباس کے مضمون کا نام ہے الاعتدال فی متابعة الرجال رقم فرمودہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ -------------------------- خلاصہ مکتوب عبدالماجد دریابادی بنام حکیم الامت تھانوی۔ ”شیخ کامل کے اتباع کامل سے متعلق جناب نے اس والا نامہ میں بھی ارشاد فرمایا ہے، اس کے علاوہ بھی بارہا زبان مبارک سے سنا، دوسرے بزرگوں کے ہان بھی اس کی تاکید دیکھی؛ لیکن اسے نفس کی شرارت سمجھا جاوے یا کچھ، بہرحال پوری تشفی اس مسئلہ میں نہ ہوئی، شبہ نفس اتباع میں نہیں، اتباعِ کامل میں بار بار پیدا ہوتا ہے اور دل کہتا ہے کہ یہ صورت تو شرک فی النبوة کی سی ہے، آنکھ بند کرکے اتباع تو صرف ”نبی معصوم“ کا کیا جاسکتا ہے، باقی اور کوئی صاحب کیسے ہی بزرگ ہوں بہرحال رائے میں بھی غلطی کریں گے اور عمل میں بھی اور یہ نہ ہو تو پھر ان میں اور معصوم میں فرق ہی کیا رہے گا؟ ہم ہزارہا غلطیاں کریں گے اور روزمرہ، وہ بہت کم کریں گے اور کبھی کبھی؛ لیکن بہرحال جب حضرات صحابہ تک نہ عملی معصیتوں سے محفوظ رہے نہ اجتہادی لغزشوں سے، تو دوسرے حضرات کا رتبہ تو ان سے بھی فروتر ہے، میرے دل کو تو سب سے زیادہ حضرت سید احمد شہید کا قول (جناب ہی کی روایت سے ہوا) لگتا ہے کہ مولانا اسماعیل جب کسی خاص مسئلہ میں ان سے گفتگو کرتے کرتے خلاف ادب سمجھ کر رک گئے تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو شرک فی النبوة ہے، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے جو معاملہ اپنے مرشد کے رسالہ ’فیصلہ ہفت مسئلہ‘ سے متعلق کی وہ بھی عین اسی کی تائید میں ہے۔ ”اعتقاد کامل اور اعتماد کامل اور انقیاد کامل“ جس شئے کا نام ہے وہ زندہ بزرگوں کے ساتھ کیا معنی، کسی پچھلے بزرگ کے ساتھ بھی نہیں پیدا ہوتا، یعنی ایسا اعتقاد کہ ان کا ہرقول، ہرعمل، بلا استثناء واجب الاتباع سمجھنے لگوں یہاں تک کہ مولانائے روم سے بھی نہیں جن کی ”مثنوی“ کا عاشق ہوں اور جس کو اپنا اصلی ہادی سمجھ رہا ہوں، حضرات صحابہ تک میں بعض کی قابل حبس اور بعض کی قابل رجم لغزشیں آخر روایاتِ صحیحہ سے ثابت ہیں یا نہیں، تو پھر دوسرے بزرگوں کے اتباع کامل کے معنی ہی کیا رہ جاتے ہیں۔ جواب حسب معمول معنیً شافی و جامع آیا، اور اب کی لفظ وعبارت کے لحاظ سے بھی اتنا مفصل کہ ایک پورا نمبر اسی کے لیے چاہیے، مفید اتنا معلوم ہوا کہ حضرت کی اجازت سے سچ میں اسی وقت درج کیا تھا، (سچ ۲۹/ دسمبر ۱۹۳۳ء) رسالچہ کا نام بھی حضرت ہی کا تجویز کیا ہوا ہے۔ الاعتدال فی متابعة الرجال (منقول از سچ جلد ۶ نمبر ۷۰ موٴرخہ ۲۹/ دسمبر ۱۹۳۳ء) تمہید از مولانا عبد الماجد دریابادی (اتباع شیخ کا مسئلہ تصوف وسلوک کے مہمات مسائل میں ہے، اگلے اور پچھلے سارے مشائخ اور ائمہ فن اس پر زور دیتے اور اس کی تاکید کرتے چلے آئے ہیں، عام ذہنوں میں اس کی تعبیر یوں ہے کہ شیخ نائب رسول ہوتا ہے اور اس لیے مطاع مطلق، جس کا ہرقول، ہرفعل، مرید کے لیے بمنزلہٴ حکم شرع، اس کی کسی رائے، کسی قول، کسی فعل میں مرید کے لیے گفتگو کی گنجائش نہیں، نصوص صوفیہ کا ظاہر بھی اسی خیال کی تائید میں؛ لیکن یہ عقیدہ اس صورت میں شریعت وعقل دونوں کے معارض ہے، شرعاً بعد انبیائے معصومین کے کوئی بزرگ کیسا ہی کامل ہو، معصوم وغیرخاطی بہرحال نہیں، مشاہدہ بھی یہی ہے کہ تجربہ کی، عمل کی، علم کی، لغزشوں اور کوتاہیوں سے یکسر محفوظ کوئی بھی بشر نہیں، زلاّت اور خطاء اجتہادی سے صحابہ تک خالی نہیں، چہ جائے کہ دوسرے بزرگ جو ان سے بہرصورت کمتر ہیں ایسوں کا اقتداء مطلق کیونکر واجب ہوسکتا ہے، چند روز ہوئے یہی شبہات ایک مفصل مکتوب کی صورت میں حضرت مولانا تھانوی کی خدمت میں پیش کیے گئے جو اپنی تدقیقات باطنی ومعالجہٴ امراض نفسی کے لحاظ سے اپنے وقت کے امام غزالی ہیں، مولانا مدظلہ کا جواب اس درجہ شافی، مفصل، اور مسئلہ کے تمام اطراف وجوانب کو حاوی ہے کہ ”سچ“ کی برادری تک اسے نہ پہنچانا ایک صریح بخل معلوم ہوا، مولانا نے از راہِ کرم اجازت اشاعت بھی مرحمت فرمادی، مکتوب مذکور فخر ومسرت کے ساتھ درج ذیل ہے۔ ان شاء اللہ اس سے بہتوں کی الجھن اور طریق کی طرف سے وحشت وبیگانگی رفع ہوجائے گی، بعض مشکل فقروں پر حاشیے دیدیئے گئے ہیں، اور بعض عبارتوں کو زیر خط کردیا گیا ہے۔ ”سچ“) خط حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ مکرمی سلمہ السلام علیکم غالباً میرے کل معروضات اس کے متعلق ذہن میں جمع اس لیے نہیں رہے کہ شاید ایک جلسہ میں مجتمعاً بیان نہیں کئے گئے، اب اس کا ملخص مجموعاً عرض کرتا ہوں: یہ اتباع نہ عقائد میں ہے نہ کشفیات میں، نہ جمیع مسائل میں، نہ امور معاشیہ میں، صرف طُرُقِ تربیت وتشخیصِ امراض وتجویزِ تدابیر اور ان مسائل میں ہے جن کا تعلق اصلاح تربیت باطنی سے ہے، وہ بھی اُس وقت تک جب تک کہ ان کا جواز مرید وشیخ کے درمیان متفق علیہ ہو، اور اگر اختلاف ہو تو شیخ سے مناظرہ کرنا خلافِ طریق ہے، اور امتثالِ امر خلافِ شریعت ہے۔ ایسی صورت میں ادب جامع بین الادبین یہ ہے کہ علماء سے استفتاء کرکے یا اپنی تحقیق سے حکم متعین کرکے شیخ کو اطلاع کرے کہ میں فلاں عمل کو جائز نہیں سمجھتا اور ہمارے سلسلہ میں اس کی تعلیم ہے، مجھ کو کیا کرنا چاہیے؟ اس پر شیخ پھر بھی وہی حکم دے تو اس شیخ کو چھوڑدینا چاہیے اور اگر وہ ترک کی اجازت دیدے تو یہ بھی اس کی متابعت ہے۔ یہ معنی ہیں اتباعِ کامل کے یعنی جو مرض نفسانی اس نے تجویز کیا ہو یا جو تدبیر اس نے تجویز کی ہو، یا جو عمل مشروع جس کا مشروع ہونا شیخ ومرید میں متفق علیہ ہو، تجویز کیا ہو ان چیزوں میں اتباع کامل کرے، ذرا بھی اپنی رائے کو دخل نہ دے، اور باقی امور میں اتباع مراد نہیں، امید ہے کہ سب شبہات کا جواب ہوگیا ہوگا، اگر کوئی جزو باقی ہو تو تعیین وتصریح کے ساتھ تحریر فرمائیے۔ خلاصہ مبحث کا اس باب میں یہ ہے کہ اتباع کا محل معلوم نہ ہونے سے یہ سب شبہات پیدا ہوئے، میں اس کا محل وقیود وحیثیت متعین کیے دیتا ہوں، سو محل تو اس کا صرف شیخ کی تعلیمات قولیہ ہیں جن کا تعلق تربیت واصلاح باطن سے ہے اور قید اس کی یہ ہے کہ وہ فعل جس کی تعلیم کی جارہی ہے شرعاً جائز ہو جس کا جواز طالب کے اعتقاد میں بھی ہو، اور حیثیت اس کی شیخ کا مصلح ہونا ہے، یعنی مصلح ہونے کی حیثیت سے صرف تعلیمات وسلوک میں اس کے اقوال پر عمل شرط نفع ہے، اب ان قیود کے فوائدِ احترازیہ بتلاتا ہوں: ”تعلیمات قولیہ“ کی قید سے خود شیخ کے افعال بھی نکل گئے، خواہ وہ افعال طالب کے اعتقاد میں جائز ہوں جیسے شیخ پانچ سو رکعات نفل روزانہ پڑھتا ہو یا ”صوم داوٴدی“ ہمیشہ رکھتا ہو، اس میں ا تباع ضروری نہیں، اور خواہ وہ افعال طالب کے اعتقاد میں جائز نہ ہوں، خواہ مختلف فیہ ہونے کے سبب، جیسے شیخ فاتحہ خلف الامام پڑھتا ہو، اور طالب اس کو مکروہ جانتا ہو، خواہ شیخ غلطی سے کسی فعل ناجائز میں مبتلا ہو، جیسے غیبت کرتا ہو، اس میں ا تباع جائز نہیں۔ اور اسی قید سے شیخ کے ”کشفیات“ نکل گئے، خصوص جب کہ طالب کا کشف اس کے خلاف ہو، اسی طرح سے جمیع مسائل اصولیہ وفروعیہ جن کا تعلق تربیت سے نہیں، خارج ہوگئے، البتہ ان میں جو امور شرعاً بھی ضروری ہیں، وہ لازم العمل ہیں گو شیخ بھی نہ کہے، اور اگر شیخ حکم دے تو یہ حکم ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ کی حیثیت سے ہوگا، مصلح ہونے کی حیثیت سے نہ ہوگا اور ان میں خلاف کرنا شریعت کی مخالفت ہوگی نہ کہ شیخ کی مخالفت؛ البتہ شریعت کی بنا پر شیخ ایسے طالب سے قطعِ تعلق کرسکتا ہے اور یہ قطع تعلق شیخ کے ساتھ خاص نہیں ہرمسلمان کو اس کا حق حاصل ہے، اس کا تعلق مسئلہ متابعت شیخ سے کچھ نہیں، اسی طرح اس قید سے امور معاشیہ نکل گئے، مثلاً شیخ کسی طالب سے یہ کہے کہ تم اپنی لڑکی کا رشتہ میرے لڑکے سے یا کسی اور سے کردو، یہ بھی متابعت کا محل نہیں، اور قید جواز کا فائدہ یہ ہے کہ جس چیز کی تعلیم کرتا ہے وہ اگر شرعاً ناجائز ہو اس میں اتباع جائز بھی نہیں، خواہ اجماعا ناجائز ہو جیسے کوئی معصیت خواہ ناجائز اختلافا ہو، جسے مسائل مختلف فیہا کی کوئی خاص شق، جو طالب کے اعتقاد میں جائز نہیں اور اس تقریر میں ضمنا حیثیت کا فائدہ بھی مذکور ہوگیا، اب اس کے متعلق سب سوال حل ہوگئے، سو یہ تو طے ہوگیا کہ بعض امور ہی محل متابعت نہیں جن میں بعض میں تو متابعت واجب نہیں جیسے امور معاشیہ اور بعض میں جائز بھی نہیں خواہ ان کا عدم جواز متفق علیہ ہو جیسے معاصی، خواہ مختلف فیہ ہو جیسے مسائلِ اختلافیہ جو طالب کے اعتقاد میں جائز نہیں، اب یہ بات باقی رہی کہ جو مور محلِ متابعت نہیں ان میں اگر شیخ حکم دے تو اگر وہ شرعاً جائز اور طالب کی قدرت میں ہیں تو مروت کا مقتضی یہ ہے کہ ان میں متابعت کرے، جیسے شیخ اپنا کوئی ذاتی کام یا کوئی خاص خدمت کرنے کی فرمائش کرے اور اگر وہ شرعاً ناجائز ہے خواہ وہ واقع میں بھی خواہ اس کے اعتقاد میں بھی ادب سے عذر کردے، اور اگر وہ اصرار کرے تو اس سے قطع تعلق کردے؛ مگر گستاخی وایذا کا معاملہ کبھی نہ کرے۔ یہ تو اس وقت ہے جب وہ خلاف شرع کا حکم دے اور اگر طالب کو ایسا حکم نہ دے؛ مگر خود کسی لغزش میں مبتلا ہو تو اگر اس میں تاویل کی گنجائش ہے تو تاویل کرے اور اس سے قطع تعلق نہ کرے، اور اگر تاویل کی گنجائش نہیں تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر احیانا اس کا صدور ہوجاتا ہو تو ”بشریت“ واحتمالِ توبہ پر محمول کرکے تعلق قطع نہ کرے اور اگر اصرار یعنی اعتیاد ہے تو اگر وہ صغیرہ ہے تو قطع تعلق نہ کردے اور جو کبیرہ اور فسق وفجور یا ظلم وخیانت کے درجہ میں ہے تو تعلق قطع کردے؛ مگر ان سب حالات میں اس کے لیے دعائے صلاحیت کرتا رہے کہ حقوق احسان میں سے ہے، ارادہ تھا خلاصہ کو مختصر لکھنے کا؛ مگر وہ اصل سے بھی زیادہ مبسوط ہوگیا۔ واللہ اعلم، اس وقت بے ساختہ ذہن میں آیا کہ اس تحریر کا ایک لقب تجویز کردیا جائے ”الاعتدال فی متابعة الرجال“۔ ۹/ شعبان ۵۲ھ


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند