• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 39363

    عنوان: توكل كا مطلب

    سوال: اگر کوئی انسان اللہ پر توکل کرکے کوئی کام کرے تو کیا وہ کام ضرور ہوجا تا ہے یا نہیں؟ اور یہ بات کہ جو اللہ پر توکل کرے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتے ہیں، کافی ہوجانے کا کیا مطلب ہے؟ توکل کے بعد انسان اپنے خاص کام میں کامیابی کا گمان رکھے یا کیا؟کیونکہ اگر میں یہ گمان رکھوں کہ ہوسکتاہے کہ کام ہوجائے اور ہوسکتا ہے کہ نہ ہو تو میں اپنے کامیابی کی کوشش اور راستہ اختیار کرنے میں شکوک اور وساوس میں مبتلا ہوجاتا ہوں اور توکل کا یہ فایدہ کہ انسان وساوس اور خطرات کے خیالات کو چھوڑ دے، مگر وہ واپس امنڈ آتیہیں،اس کا کیا علاج ہے؟

    جواب نمبر: 39363

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی:922-543/L=7/1433 اللہ رب العزت پر توکل کرنے کی صورت میں اللہ کا اس کے لیے کافی ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العزت اپنی کفایت کا اثر خاص اصلاح مہمات میں ظاہر فرماتے ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ”اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسا کہ اس کا حق ہے تو بیشک اللہ تعالیٰ تمھیں اس طرح رزق دیتا جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح کو اپنے گھونسلوں سے بھوکے نکلتے ہیں أور شام کو پیٹ بھرے ہوئے واپس آتے ہیں“ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بے حساب جنت میں داخل ہوں گے، ان کے اوصاف میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پر توکل کرنے والے ہوں گے، توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اَسباب اختیاریہ کو اختیار کرکے بھروسہ اسباب پر کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ پر کرے کہ جب تک اس کی مشیت وارادہ نہ ہوجائے کوئی کام نہیں ہوسکتا، آدمی کو توکل کرلینے کے بعد اس میں شکوک وشبہات میں نہ پڑنا چاہیے، اس سے آدمی توکل کے خاص برکات سے محروم ہوجاتا ہے، اور اگر کبھی وسوسہ پیدا ہو تو کثرت سے لاحول پڑھ کر اس کو دفع کرنا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند