متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 36114
جواب نمبر: 36114
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 188=188-2/1433 اس بحث کی تفصیل حضرت مولانا منظور صاحب نعمانی نے اس طرح کی ہے: ”اصل مقصود یہی سلوک راہِ نبوت ہے مگر چوں کہ سلوک راہِ ولایت سے سلوکِ راہِ نبوت آسان ہوجاتا ہے اس لیے سلوک راہِ ولایت کو اختیار کیا جاتا ہے“، حضرت شہید فرماتے ہیں: ”حصول نسبت ولایت سلوک راہِ نبوت کو آسان کردیتا ہے اور جس کو نسبت ولایت حاصل ہوتی ہے وہ نسبت نبوت کو تھوڑی محنت میں حاصل کرلیتا ہے“۔ (صراطِ مستقیم: ۸) اب تصوف کے ان اعمال واشغال کا مسئلہ باقی رہا، جن کی ضرورت عہد نبوت سے دوری، اور ماحول کی ناسازگاری کے باعث متاخرین کو پیش آئی! اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ ان اعمال واشغال میں ذکر وفکر یہ دو چیزیں بنیادی ہیں اور یہ دونوں چیزیں مامورات شرعیہ میں سے ہیں، بحث جو کچھ ہے وہ ذکر وفکر کے طریقوں، وضعوں اور قیود میں ہے، تو خوب سمجھ لیجیے کہ ذکر وفکر کے یہ قیود، طرق اور اوضاع صرف تدبیر ومعالجہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ”ایضالحق الصریح“ میں مولانا اسماعیل صاحب شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”صوفیہ کے نفع بخش اشغال کی حیثیت دوا ومعالجہ کی ہے کہ بہ وقت ضرورت ان سے کام لے، اور بعد کو پھر اپنے کام میں مشغول ہو“ (ص: ۷۸) مستفاد ”تصوف کیا ہے“ (ص:۷۲ و ۷۳)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند