• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 158838

    عنوان: میں نے کالج کے زمانہ میں بہت سی لڑکیوں سے زنا کیا، بیوی سے لواطت کی، اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟

    سوال: میں کالج میں پڑھتا ہوں اور میں نے بہت سی لڑکیوں کے ساتھ زنا کیا ہے اور میں نے بہت بار الٹی سیدھی حرکتیں بھی کی ہیں، جیسا کہ میں اب شادی شدہ ہوں اور میری بیوی ہے اس کے ساتھ بھی میں نے بہت سے برے کام کیے ہیں جیسے کہ اس کے ساتھ ایک دو مرتبہ اس کی مرضی کے بنا جو حاجت کا راستہ ہوتا ہے اس میں غلط کام کیا ہے ، جناب میں اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ حاجت والے راستے میں ثابت کرتا ہے تو وہ کہاں تک جائز ہے ؟یا اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ جواب ضرور دیں اور زنا کے بارے میں بھی بتائے جو مجھ سے ہوچکا ہے ۔

    جواب نمبر: 158838

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 600-484/N=6/1439

    (۱، ۲): بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنا سخت حرام وناجائز اور لعنت کا کام ہے،آپ اس سے سچی توبہ کریں اور بیوی سے زبردستی کی تو اس سے بھی معافی مانگیں اور آئندہ پرہیز کریں۔ اسی طرح ماضی میں جو مختلف زنا کاریاں ہوں، ان سے بھی سچی پکی توبہ کریں اور آئندہ زنا اور اس کے اسباب سے بچنے اور دور رہنے کی بھر پور کوشش کریں۔ اگر آپ سچی پکی توبہ کریں گے تو امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول فرمائیں گے۔

    قال اللہ تعالی:﴿نساوٴکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم﴾(سورة البقرة: ۲۲۳)، عن ابن عباسوأبي ھریرةأن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:” ملعون من عمل عمل قوم لوط“، رواہ رزین، وعن ابن عباسأن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”لا ینظر اللہ عز وجل إلی رجل أتی رجلاً أو امرأة في دبرھا“ رواہ الترمذي (مشکاة المصابیح، ص ۳۱۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، اتفق الفقہاء علی أن اللواط محرم وأنہ من أغلظ الفواحش وقد ذمہ اللہ تعالی فی کتابہ الکریم وعاب علی فعلہ فقال: ولوطا إذ قال لقومہ أتأتون الفاحشة الآیة (سورة الأعراف،۸۰،۸۱) وقال تعالی: أتأتون الذکران الآیة (سورة الشعراء ، ۱۶۵، ۱۶۶) وقد ذمہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم بقولہ: لعن اللہ من عمل عمل قوم لوط ولعن اللہ من عمل عمل قوم لوط، ولعن اللہ من عمل عمل قوم لوط (أخرجہ أحمد والحاکم من حدیث ابن عباس وصححہ الحاکم ووافقہ الذھبي) (الموسوعة الفقہیة، ۳۵: ۳۴۰)، وفی الأشباہ: حرمتھا عقلیہ فلا وجود لھا فی الجنة،……وفی البحر: حرمتھا أشد من الزنا لحرمتھا عقلاً وشرعاً وطبعاً(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحدود، ۶: ۳۹، ۴۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال اللہ تعالی: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورة الزمر، رقم الآیة:۵۳)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان (مشکاة المصابیح،کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبة، الفصل الثالث،ص: ۲۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، والحدیث حسنہ الحافظ ابن حجر العسقلانيلشواہدہ کما نقلہ عنہ السخاوی في المقاصد الحسنة لہ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند