• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 66437

    عنوان: عورتوں کا مسجد میی نماز کے لے جانا

    سوال: احناف کے یہاں عورت کو مسجد میں نماز پڑھنے کے بارے میں کیا فتوی ہے، یہ آپ سب جانتے ہیں۔ آئیے ابوحنیفہ کا اس پر کیا عمل تھا رمضان کے مہینہ میں امام ابوحنیفہ اپنی والدہ کے ساتھ عمر بن ذر کی مسجد نماز تراویح پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے، حالانکہ امام صاحب کا گھر عمر بن ذر کی قیام گاہ سے بہت ہی زیادہ دور تھا۔ (الانتفاء: ۱۳۹، بسند صحیح) اللمحات إلی مافی أنوار الباری من الظلمات ص ۲۷۴ جلد اول۔

    جواب نمبر: 66437

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 750-151/D=10/1437 قرآن و حدیث کی روشنی میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو گھر میں بلکہ گھر کے کونے میں نماز پڑھنا افضل ہے اور عورتوں کو مساجد جانا جبکہ زمانہ پُر فتن ہے اور فحاشیاں عام ہیں منکرات و مفاسد سے خالی نہیں ہے؛ اسی بنا پر حضرات فقہاء کرام نے عورتوں کے مسجد آنے کو مکروہ قرار دیا ہے، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے زمانے میں عورتوں کو مسجد آنے سے روکا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کو تسلیم کیا۔ ” ولقد نہی عمر  النساء عن الخروج إلی المساجد فشکون إلی عائشہ  فقالت: لو علم النبي صلی اللہ علیہ وسلم ما علم عمر ما أذن لکن فی الخروج“ (العنایة شرح الہدایة ۱/۳۶۵ ط: دارالفکر بیروت)۔ عن ابن مسعود  عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاة المرأة في بیتہا أفضل من صلاتہا فی حجرتہا، وصلاتہا في مخدعہا أفضل من صلاتہا في بیتہا۔ (سنن أبي داوٴد: رقم: ۵۷۰ ط: المکتبة العصریة - بیروت)۔ البتہ بعض فقہاء نے بوڑھی عورتوں کو عشاء، تراویح اور فجر کی نماز میں جانے کی گنجائش کی بات لکھا ہے؛ لیکن فساد زمانہ کی وجہ سے فتوی نہ جانے پر ہے۔ ویکرہ حضورہن الجماعة ولوجمعة وعیدٍ ووعظٍ مطلقاً ولو عجوزاً لیلاً علی المذہب المفتی بہ لفساد الزمان، واستثنی الکمال بحثاً العجائز والمتفانیة․ (الدرالمختار: ۱/۵۶۶) قال الشامی : (قولہ: علی المذہب المفتی بہ) أی مذہب المتأخرین، قال في”البحر“: وقد یقال ہذہ الفتویٰ التي اعتمدہا المتأخرون مخالفة لمذہب الإمام وصاحبیہ، فإنہم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً، وأما العجائز فلہا حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظہر والعصر والجمعة وعندہا مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الکل مخالف لکل، فالاعتماد علی مذہب الإمام اھ․ قال في ” النہر“: وفیہ نظر بل ہو ماخوذ من قول الإمام، وذلک أنہ إنما منعہا لقیام الحامل وہو فرط الشہوة بناءً علی أن الفسقة لا ینتشرون فی المغرب؛ لأنہم بالطعام مشغولون وفی الفجر والعشاء نائمون، فإذا فرض انتشارہم في ہذہ الأوقات لغلبة فسقہم کما فی زماننا بل تحریہم إیاہا کان المنغ فیہا أظہر من الظہر۔ اھ․ قلت: ولا یخفی مافیہ من التوریة اللطیفة․ (ردالمختار ج:۱/ ۵۶۶ ط: سعید کراچی) وفی تقریرات الرافعي: (واستثنی الکمال بحثاً العجائز) لکن من أطلق قال: لکل ساقطة لاقطة، وإذا کان الفساق تتبع البہائم والموتی فی القبور فلأن تتبع العجائز المتفانیة أولیٰ فکلٌّ تکلم علی حسب حالہ ومایشاہد فی أہل عصرہ، ومن اتسع اطلاعہ منع الکل وہو الصواب، ویشہد لہ حدیث عائشة حیث قالت: لو رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماأحدث النساء لمنعہن المساجد․ (التحریر المختار ص: ۷۲، ج:۱ ط: سعید، ص: ۹۸، ج:۲ زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند