• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 146951

    عنوان: فاتحہ خلف الامام پر حدیث كی تحقیق؟؟

    سوال: میں الحمد للہ دیوبندی ہوں،فاتحہ خلف الامام کے مسئلے میں خوب مطالعہ کیا ہے احسن الکلام کالیکن ایک اشکال جو کہ کسی مناظرے اور کتاب میں اس کا جواب نہیں دیا گیا ہے ،وہ یہ کہ ہم جو دلائل ترت قرائت خلف الامام کے مسئلے میں پیش کرتے ہیں اس میں قراَت کا لفظ ہوتا ہے مگر فاتحہ کا نہیں،اس پر غیر مقلد کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ فاتحہ قراَت ہے مگر عام قراَت سے فاتحہ کا اثتثناء ثابت ہے جس پر وہ دلائل پیش کرتے ہیں اور پہر اس اثتثنائی پر مثالیں بہی دیتے ہیں جیسے \'\'انما حرم علیکم المیتة .......تم پر تو حرام کیا گیا ہے مردہ .......(سورہ بقرة آیت173)قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوا کہ مردہ (یعنی جو حلال جانور اپنی طبعی موت مرجائے )حرام ہے ۔ اور اب کسی بھی مردہ کو کھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے ۔ لیکن حدیث میں ہے :'\'ھو االطور ماء ہ والحل میتتہ \'\'۔'\'سمند ر کا پانی پاک ہے اور اس کا \'\'مردہ\'\'(مچھلی )حلال ہے \'\'۔(رواہ مالک والترمذی وابو داؤد والنسائی وابن ماجہ والدارمی ، مشکاةالمصابیح وسندہ صحیح )اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مچھلی اگرچہ مردہ ہے لیکن اس کا کھانا حلال ہے اگرچہ بظاہر یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے لیکن جب قرآن وحدیث میں بظاہر تضاد ہوگا تو ان میں تطبیق دی جائے گی ۔ یعنی اگرچہ ہر مردہ حرام ہے لیکن مچھلی مردہ ہونے کے باوجود بھی حلال ہے کیونکہ یہ ایک استثنائی صورت ہے اور دیکھا گیا ہے کہ منکر عذاب القبر اور منکرین حدیث بھی اس \'\'مردہ\'\'کو مزے لے لے کر کھاتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث پر سچے دل سے ایمان رکھا جائے اور ان پر شک وشبہ نہ کیا جائے ۔

    جواب نمبر: 146951

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 230-195/Sd=4/1438

     

    غیر مقلدین فاتحہ خلف الامام پر جو دلیل پیش کرتے ہیں ، وہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے لکھا ہے کہ وہ سند اور متن دونوں اعتبار سے مضطرب ہے، معارف السنن میں علامہ بنوری (رح) نے سند میں اضطراب کی آٹھ وجوہات اور متن میں اضطراب کی تیرہ وجوہات نقل کی ہیں اور امام کے پیچھے مطلق قراء ت نہ کرنے پر بہت سی صریح اور مضبوط دلیلیں موجود ہیں، تفصیل کے لیے آپ دار الافتاء دار العلوم/دیوبند کے اہم فتاوی پر مشتمل کتاب” چند اہم عصری مسائل جلد اول، ص: ۱۵۳تا ۱۵۷ملاحظہ فرمائیں، یہ کتاب دار العلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند