عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک
سوال نمبر: 146444
جواب نمبر: 146444
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 211-273/Sn=4/1438
جس ”حدیثِ قدسی“ کا مفہوم آپ نے بیان کیا ہے، اس حدیث کا عربی متن مع حوالہ اس غیرمقلد سے معلوم کرکے تحریر کریں، پھر حدیث کا مطلب لکھ دیا جائے گا، ان شاء اللہ، جہاں تک اجماع اور قیاس کی ”حجیت“ کی بات ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ خیر القرون سے لے کر آج تک جتنے بھی بڑے بڑے محدثین، شراحِ حدیث اور فقہاء وائمہ گزرے ہیں سب ”اجماع اور قیاس“ کو قرآن وسنت کے بعد شرعی دلیل کے طور پر مانتے آئے ہیں، ان علماء و محدثین میں حضرت امام مالک رحمہ اللہ (جو بلند پایہ محدث اور فقیہ تھے جنھیں امام در الہجرہ کا لقب دیا جاتا ہے) اسی طرح مشہور محدث احمد بن حنبل، عبد اللہ بن المبارک، سفیان ثوری، امام بخاری، امام نووی، حافظ بن حجر (رحمہم اللہ) یہاں تک کہ علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم (رحمہما اللہ) بھی ان میں شامل ہیں، کیا یہ تمام محدثین اور فقہاء جن کی تصنیفات سے پوری امت استفادہ کرتی ہے ”خرافات“ (جیسا کہ غیرمقلد کا کہنا ہے کہ اجماع اور قیاس مولویوں کی خرافات ہیں) پر عمل کرتے تھے، اور ”خرافات“ کو بھی حجت شرعی تسلیم کرتے تھے، یہ سوال آپ اس غیر مقلد سے پوچھئے، اسی طرح اس سے معلوم کیجیے کہ جب راویوں کی توثیق وتضعیف اور احادیث کی تشریح وغیرہ میں ان کبارِ محدثین وفقہاء پر اعتماد کیا جاسکتا ہے تو اجماع اور قیاس کی ”حجیت“ کے سلسلے میں ان کے عمل وقول پر کیوں اعتماد نہیں کیا جاتا؟
نوٹ: اجماع اور قیاس کی حجیت قرآن وحدیث سے ثابت ہے، چاروں فقہی مسلک کی کتابوں میں اجماع اور قیاس کی حجیت کی دلیلیں موجود ہیں، نیز اس موضوع پر مستقل تصنیفات بھی موجود ہیں، مکتبہ دارالعلوم دیوبند سے شائع شدہ ”مجموعہٴ رسائل ومقالات“ میں بزبان اردو اجماع اور قیاس کی حجیت نیز غیرمقلدین کی طرف سے ”احناف“ کے اوپر کیے جانے والے اعتراضات کے تفصیلی جوابات موجود ہیں، بہ وقت ضرورت اس کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند