عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک
سوال نمبر: 146008
جواب نمبر: 146008
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 173-242/M=2/1438
عام آدمی مختلف فیہ آحادیث کے مابین یہ فرق نہیں کرسکتا کہ کونسی حدیث ناسخ ہے اور کونسی منسوخ، کونسی حدیث راجح ہے اور کونسی مرجوح اور کونسی حدیث کا کیا درجہ ہے اور اس کا محل اور مصداق کیا ہے؟ اسی لیے ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت نہیں کہ صحاح ستہ کو سامنے رکھ کر کسی ماہر مستند اہل حق عالم سے پڑھے اور سمجھے بغیر از خود عمل کرنا شروع کردے اس سے گمراہی کا اندیشہ ہے، اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں پڑ جانے کا خطرہ ہے جیسے کوئی نابینا شخص ہو جو راستے کے خطرات او رنشیب و فراز سے ناواقف ہو اورو وہ کسی بینا شخص کا ہاتھ پکڑے بغیر او رکسی جانکار کی راہنمائی کے بغیر اس راستے پر چل پڑے تو امکان اس کا ہے کہ وہ راستہ بھٹک جائے یا راستے کے گڑھے میں گر پڑے، اس لیے سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ جو حضرات قرآن وحدیث او ردین و شریعت کے ماہرین ہیں ان کی تشریحات پر اعتبار کیا جائے، اسلاف میں سے حضرات ائمہ اربعہ کی علمی بصیرت او راجتہادی شان پر دنیائے اہل علم کا اتفاق ہے اور ان کے مذاہب و مسائل کتابوں میں مدوّن ہیں اس لیے ان چار ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک امام کی تقلید لازم و واجب ہے اس لیے کہ فقہاء کرام احادیث کے معانی اور مفاہیم کو سب سے زیادہ جانتے ہیں لہٰذا اپنی ناقص فہم کے مقابلے میں ان مجتہدین کے فہم پر اعتماد کرنا بدرجہا بہتر ہے۔
تقلید کیوں ضروری ہے؟ اور عدم تقلید کی صورت میں کیا نقصان ہے؟ اور ائمہ اربعہ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کیوں لازم ہے وغیرہ وغیرہ ان تمام موضوعات کی تفصیل کے لیے دیکھئے: اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ (افادات حضرت تھانوی رحمہ اللہ ترتیب: مولانا زید مظاہری صاحب) اور آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد اول، ص/ ۲۷تا ۳۲مطبوعہ زکریا دیوبند از مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ )۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند