• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 146008

    عنوان: تقلید ائمہ کے بغیر قرآن وحدیث پر عمل

    سوال: یہ اٹھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ یہ فقہ تھے ، نہ ہی مسلک اور نہ ہی یہ تاکید کہ کسی خاص امام یا فرقے کی پیروی کرنی ہے ۔- الہ کہ جو کچھ قرآن و حدیث میں موجود ہے ، اس پہ عمل کرنے والا ہی کامیاب ہے - قرآن پاک کے احکامات پہ تو کویٰ عجز اٹھ ہی نہیں سکتا- البتہ فرق احادیث کی روایات میں ہیں- تو برادرم اگر کوئی شخص ان تضاد سے مبرا ہو کہ جو صحاح ستہ کی احادیث میں بیان ہوا ہے اسے اپنائے اس شخص کے بارے میں علما کا کوئی بیان ہے ؟مثال کے طور پہ: میں نے صحاح ستہ کا مطالعہ کیا ہے وہاں رفع یدیں کے بیان میں زیادہ احادیث میں کرنے پہ زور ہے اور ایک حدیث حصرت عبداللہ بن مسعود رض سے مروی ہے ، جس میں ذکر ہے کی نہیں کرنا- اسی طرح امام کے پیچھے آمیں کہنے نماز قصر کے بیان وغیرہ میں مختلف روایات سے مختلف طریقے بیان ہیں- تو اگر ایک شخص صحاح ستہ کو سامنے رکھ کے عبادات کے عمل کرے تو اس کے عذر کا وزن کیا ہوگا؟اس کے علاوہ مہربانی فرما کے یہ بھی بتا دیجئے گا کہ مختلف احادیث پہ مختلف عمل کرنے پہ کیا اختلاف ہے ؟ اور اگر کوئی شخص کسی خاص فرقے کا داعی نہ ہو تو کیا ہوگا؟اسی طرح دو اشخاص کا حدیث کے معاملے میں اختلاف آرہا ہو اور ایک دوسرے کو غلط جانا جائے تو دین میں ان کی کیا حیثیت ہو گی؟جواب اگر توسط کے ساتھ مل جا ئے تو بہتر ہے کیوں کہ کسی کو بتانا ہو تو آج کل لوگ ریفرینس کے بغیر قبول کرنے میں یچکچاتے ہیں۔

    جواب نمبر: 146008

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 173-242/M=2/1438

     

    عام آدمی مختلف فیہ آحادیث کے مابین یہ فرق نہیں کرسکتا کہ کونسی حدیث ناسخ ہے اور کونسی منسوخ، کونسی حدیث راجح ہے اور کونسی مرجوح اور کونسی حدیث کا کیا درجہ ہے اور اس کا محل اور مصداق کیا ہے؟ اسی لیے ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت نہیں کہ صحاح ستہ کو سامنے رکھ کر کسی ماہر مستند اہل حق عالم سے پڑھے اور سمجھے بغیر از خود عمل کرنا شروع کردے اس سے گمراہی کا اندیشہ ہے، اور نفسانی خواہشات کی پیروی میں پڑ جانے کا خطرہ ہے جیسے کوئی نابینا شخص ہو جو راستے کے خطرات او رنشیب و فراز سے ناواقف ہو اورو وہ کسی بینا شخص کا ہاتھ پکڑے بغیر او رکسی جانکار کی راہنمائی کے بغیر اس راستے پر چل پڑے تو امکان اس کا ہے کہ وہ راستہ بھٹک جائے یا راستے کے گڑھے میں گر پڑے، اس لیے سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ جو حضرات قرآن وحدیث او ردین و شریعت کے ماہرین ہیں ان کی تشریحات پر اعتبار کیا جائے، اسلاف میں سے حضرات ائمہ اربعہ کی علمی بصیرت او راجتہادی شان پر دنیائے اہل علم کا اتفاق ہے اور ان کے مذاہب و مسائل کتابوں میں مدوّن ہیں اس لیے ان چار ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک امام کی تقلید لازم و واجب ہے اس لیے کہ فقہاء کرام احادیث کے معانی اور مفاہیم کو سب سے زیادہ جانتے ہیں لہٰذا اپنی ناقص فہم کے مقابلے میں ان مجتہدین کے فہم پر اعتماد کرنا بدرجہا بہتر ہے۔

    تقلید کیوں ضروری ہے؟ اور عدم تقلید کی صورت میں کیا نقصان ہے؟ اور ائمہ اربعہ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کیوں لازم ہے وغیرہ وغیرہ ان تمام موضوعات کی تفصیل کے لیے دیکھئے: اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ (افادات حضرت تھانوی رحمہ اللہ ترتیب: مولانا زید مظاہری صاحب) اور آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد اول، ص/ ۲۷تا ۳۲مطبوعہ زکریا دیوبند از مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ )۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند