• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 8426

    عنوان:

    میں ایک انڈین مسلم ہوں اور سعودی عربیہ میں کام کرتا ہوں۔ میرے دوبچے ہیں ایک لڑکا (محمد ریاض الدین عمر تقریباًچھ سال)اور ایک لڑکی(سمیہ عمر تقریباً چار سال) ہے۔ میری بیوی کا نام مرحومہ طلحہ جہاں (متوفی 6/مئی 2008)جس کا انتقال اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے دوران بیماری میں ہوا۔ میرے ساس اورسسر کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔ ہمارے والد صاحب زندہ ہیں اورانڈیا میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں جب کہ میری ماں کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔میرے بھائی اور بہن بھی ہیں۔ میری بیوی کے انتقال کے بعد میرے سالے نے میرے بچوں کو زبردستی اپنی تحویل میں لے لیا اوروہ یہ کہتے ہیں کہ صرف وہی لوگ ہیں جو کہ بچوں کی دیکھ بھال کریں گے اور ان کی پرورش کریں گے اوروہ ہمیں ہمارے بچوں سے ملنے بھی نہیں دیتے ہیں۔ اورمیرے سالے اورسالی مجھے اس بات پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ مجھے ہی ان کی پرورش کے تمام اخراجات برداشت کرنے ہوں گے اور ان کا کہنا ہے کہ مجھے ماہانہ ان کو تمام اخراجات دینے ہوں گے اور میرے بچوں کے نام پر ایک فکس ڈپوزٹ بھی جمع کرنا ہوگا۔ میرا لڑکا ایک اچھے اسکول میں پڑھ رہا تھا لیکن میرے سالے اور سالیوں نے میرے لڑکے کو اس اسکو ل سے نکلواکر کے اس کو ایک بہت ہی گھٹیا قسم کے اسکول میں داخل کرادیاہے۔ میرے سسرال والے جاہل اور لالچی ہیں اور ان کی رہنے کی حالت بہت خراب ہے اور وہ صرف نام کے مسلمان ہیں۔ میں اپنے بچوں کو اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہوں تاکہ میں اپنے بچوں کی پرورش اسلام کے مطابق کرسکوں اور ان کواچھی تعلیم دے سکوں، لیکن وہ لوگ میرے بچوں کودینے سے منع کررہے ہیں۔ مزید برآں میری مرحوم بیوی کی بہنیں برے کردار اور غیراخلاقی اقدار کی حامل ہیں ان کے برے کردار کے بارے میں ہمارے پاس سول کورٹ کا ثبوت ہے۔ اگر میرے بچے ان کے پاس جائیں گے تو میرے بچوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔میں آپ کی رہنمائی اور فتوی کا طلب گار ہوں۔ جلدی جواب کا منتظر، کیوں کہ آپ کا فتوی میرے بچوں کی زندگی بچاسکے گا۔

    سوال:

    میں ایک انڈین مسلم ہوں اور سعودی عربیہ میں کام کرتا ہوں۔ میرے دوبچے ہیں ایک لڑکا (محمد ریاض الدین عمر تقریباًچھ سال)اور ایک لڑکی(سمیہ عمر تقریباً چار سال) ہے۔ میری بیوی کا نام مرحومہ طلحہ جہاں (متوفی 6/مئی 2008)جس کا انتقال اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے دوران بیماری میں ہوا۔ میرے ساس اورسسر کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔ ہمارے والد صاحب زندہ ہیں اورانڈیا میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں جب کہ میری ماں کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔میرے بھائی اور بہن بھی ہیں۔ میری بیوی کے انتقال کے بعد میرے سالے نے میرے بچوں کو زبردستی اپنی تحویل میں لے لیا اوروہ یہ کہتے ہیں کہ صرف وہی لوگ ہیں جو کہ بچوں کی دیکھ بھال کریں گے اور ان کی پرورش کریں گے اوروہ ہمیں ہمارے بچوں سے ملنے بھی نہیں دیتے ہیں۔ اورمیرے سالے اورسالی مجھے اس بات پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ مجھے ہی ان کی پرورش کے تمام اخراجات برداشت کرنے ہوں گے اور ان کا کہنا ہے کہ مجھے ماہانہ ان کو تمام اخراجات دینے ہوں گے اور میرے بچوں کے نام پر ایک فکس ڈپوزٹ بھی جمع کرنا ہوگا۔ میرا لڑکا ایک اچھے اسکول میں پڑھ رہا تھا لیکن میرے سالے اور سالیوں نے میرے لڑکے کو اس اسکو ل سے نکلواکر کے اس کو ایک بہت ہی گھٹیا قسم کے اسکول میں داخل کرادیاہے۔ میرے سسرال والے جاہل اور لالچی ہیں اور ان کی رہنے کی حالت بہت خراب ہے اور وہ صرف نام کے مسلمان ہیں۔ میں اپنے بچوں کو اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہوں تاکہ میں اپنے بچوں کی پرورش اسلام کے مطابق کرسکوں اور ان کواچھی تعلیم دے سکوں، لیکن وہ لوگ میرے بچوں کودینے سے منع کررہے ہیں۔ مزید برآں میری مرحوم بیوی کی بہنیں برے کردار اور غیراخلاقی اقدار کی حامل ہیں ان کے برے کردار کے بارے میں ہمارے پاس سول کورٹ کا ثبوت ہے۔ اگر میرے بچے ان کے پاس جائیں گے تو میرے بچوں کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔میں آپ کی رہنمائی اور فتوی کا طلب گار ہوں۔ جلدی جواب کا منتظر، کیوں کہ آپ کا فتوی میرے بچوں کی زندگی بچاسکے گا۔

    جواب نمبر: 8426

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1886/ل=1790/ک

     

    آپ کے بچوں کی ناندی دادی موجود نہیں تو حق حضانت (پروش کا حق) لڑکے کے سات سال کی عمر اور لڑکی کے قریب البلوغ عمر تک خالہ پھر پھوپھی کو حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ شادی کسی ایسے شخص سے نہ ہوئی ہو جو بچوں کا نامحرم ہو، مثلاً چچا نہ ہو) خالہ کی شادی ہوجانے پر اس کا حق حضانت بھی ختم ہوگیا۔ پھوپھی اگر غیرشادی شدہ ہے تو بچوں کو آپ اس کے پاس رکھیں۔ اور اگر پھوپھی بھی شادی شدہ ہیں تو اس کا حق حضانت بھی ختم ہوگیا پھر آپ کو ہی پروش کرنے اور رکھنے کا پورا حق حاصل ہوجائے گا۔ نیز جب بچوں کی خالہ کے کردار و اخلاق کے بارے میں آپ کو اطمینان نہیں ہے بچوں کے بگڑنے کا ڈر ہے تو آپ کو حق ہے کہ بچوں کو ان کے پاس پرورش کے لیے نہ رہنے دیں۔ سالے اور سالی کا زبردستی کرکے بچوں کو اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔ نیز اخراجات کا مطالبہ کرنا یا فکس رقم جمع کرنے کا مطالبہ کرنا بیجا ہے: قال في الدر الحضانة تثبت للأم ثم أم الأم ثم أم الأب وإن علت ثم الأخت لأب وأم ثم لأم ثم لأب ثم الخالات کذلک ثم العمات کذلک ثم العصبات بترتیب الإرث فیقدم الأب ثم الجد وقال أیضا والحاضنة یسقط حقھا بنکاح غیر محرمہ أي الصغیر وکذا بسکناھا عند المبغضین لہ (ج:۲، ص:۶۹۴، شامي) لڑکا سات سال کا ہوجائے اور لڑکی نو سال کی تب تو آپ (باپ کو) زبردستی اپنے بچوں کو لینے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ قال في الدر فإن أکل وشرب ولبس واستنجی وحدہ دفع إلیہ ولو جبرًا وفي الفتح ویجر الأب علی أخذ الولد بعد التغنائہ عن الأم لأن نفقتہ وصیانتہ علیہ بالإجماع وقدر للاستغناء في الصغیر بسبع سنین وفي الصغیرة بتسع سنین (ج:۲، ص:۶۱۵، شامي)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند