• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 68851

    عنوان: وقوع طلاق کے لیے بیوی یا کسی کا شوہر کی زبان سے لفظ طلاق سننا ضروری ہے ؟

    سوال: (۱) طلاق کے بارے میں میرا سوال ہے۔ چھ سال سے زائد عرصہ سے میں بیوی کے ساتھ کچھ مسائل میں پریشان ہوں، ہماری ایک لڑکی ہے، بیوی کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہیں ہے،وہ میرا بحیثیت شوہر احترام نہیں کرتی ہے، ان حالات میں میں نے چار اپریل 2015کو اس کے والد اور دوسرے گواہوں کے سامنے اس کو طلاق دیدی ہے یہ کہہ کر کہ طلاق، طلاق ، طلاق، تین مرتبہ ۔ اور میں اب بھی اسی فیصلے پر قائم ہوں، لیکن کچھ دن پہلے اس نے کہا کہ میں نے یہ لفظ طلاق نہیں سنا تھا اور اس بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ (۲) اور کیا وقوع طلاق کے لیے بیوی یا کسی کا شوہر کی زبان سے لفظ طلاق سننا ضروری ہے ؟ براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 68851

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1242-1259/N=11/1437

    (۱، ۲) : نکاح میں گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے، طلاق میں گواہوں کی کوئی ضرورت نہیں، نیز طلاق کے سلسلہ میں شوہر خود مختار ہوتا ہے، بیوی کے ماننے، قبول کرنے یا سننے وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی؛ اس لیے صورت مسئولہ میں جب آپ نے ۴/ اپریل ۲۰۱۵ء کو اپنی بیوی کو اس کے والد صاحب اور دوسرے گواہوں کی موجودگی میں تین مرتبہ طلاق، طلاق، طلاق کہہ دیا تو اگرچہ آپ کی بیوی نے براہ راست آپ کی زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں سنے تب بھی صورت مسئولہ میں اس پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، وہ آپ پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوگئی اور اب حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں وہ دوبارہ آپ کے نکاح میں نہیں آسکتی، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إنما الطلاق لمن أخذ بالساق (السنن لابن ماجة، کتاب الطلاق، باب طلاق العبد، ص ۱۵۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ، قولہ: ”الطلاق لمن أخذ بالساق“ : کنایة عن ملک المتعة (رد المحتار، أول کتاب الطلاق ۴: ۴۵۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وقال اللّٰہ تعالی: فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة (سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰) ، وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود، کتاب الطلاق، باب فی اللعان ص۳۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند) ، وصححہ الشوکاني کما فی نیل الأوطار لہ (کتاب اللعان، باب لا یجتمع المتلاعنان أبداً ۱۲: ۵۱۴ ط دار ابن الجوزي للنشر والتوزیع) ، وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ﴾ وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ (بدائع الصنائع ۳: ۲۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة (الفتاوی الھندیة، کتاب الطلاق، باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ۱: ۴۷۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند