• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 68668

    عنوان: گواہوں کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے

    سوال: اگر کسی شخص نے دو طلاق اپنی بیوی کو ایک کمرہ میں تنہا غصہ میں دی ہو بغیر کسی گواہ کے اور کچھ سال بعد دو طلاق اپنی امی سے فون پر دی کہ ”میں نے اسے طلاق دے دی اسے چھوڑ دیا“ تو کیا طلاق ہو گئی، جب کہ اس شخص کو یہ نہیں معلوم تھا کہ کسی دوسرے سے بھی کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے اور اس شخص کا ارادہ/ نیت بھی طلاق دینے یا اپنی بیوی کو چھوڑنے کی نہ تھی، تو کیا طلاق ہوگئی ہے ؟اگر ہوگئی ہے ، تو اب وہ دوبارہ کیسے نکاح کریں کیوں کہ ان کی دو چھوٹی لڑکیاں ہیں۔ عرض یہ بھی ہے کہ اس شخص کو جب غصہ آتا ہے تو وہ بالکل آپے سے باہر ہوجاتا ہے بلکہ کچھ چیزیں اپنے سر یا ہاتھ پر مار لیتا ہے اس غصہ کے سبب ہی اس نے طلاق دی ہے مگر اس کا ارادہ یا نیت نہ تھی۔ براہ کرم آپ سے گزارش ہے کہ مسئلہ پر روشنی ڈالیں اور چند زندگیوں کو بچانے کی کوشش کریں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ جلد ہی جواب دیں۔

    جواب نمبر: 68668

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 801-824/Sd=10/1437 صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کو اقرار ہے اُس نے اپنی بیوی کو پہلے دو طلاق کمرے میں دی، پھر دو طلاق اپنی والدہ سے فون پر دی، تو ایسی صورت میں شخص مذکور کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور رشتہ نکاح بالکلیہ ختم ہوگیا، اب حلالہ شرعی کے بغیر دوبارہ نکاح کی کوئی صورت نہیں ہے، طلاق کے واقع ہونے کے لیے شرعا گواہوں کا ہونا ضروری نہیں ہے، گواہوں کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ سوال میں مذکورہ شخص کے غصہ کی جو کیفیت لکھی ہے، اتنی کیفیت میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، ہاں اگر غصہ کی حالت میں مذکورہ شخص کے ہوش و حواس بھی بالکل ختم ہوجاتے ہیں اور اُس کو بعد میں اس کا علم نہیں ہوتا کہ اُس نے غصہ کی حالت میں کیا کہا ہے، تو اس کی وضاحت کر کے دوبارہ سوال کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند