• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 68568

    عنوان: غصہ میں آكر میں نے اُس کو دو طلاق دے دی

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں محمد مجاہد شیخ عاقل اور بالغ اس بات کی وضاحت کرتا ہوں کہ میرا نکاح ۱/۱۰/۲۰۱۰ء کو زہرة بانو عبد الستار کے ساتھ ہوا، نکاح کے بعد سے ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے جھگڑے ہونے لگے، اِس بیچ ایک اولاد بھی ہوئی لیکن جھگڑے اتنے بڑھ گئے کہ میں اب اس سے بھاگنے لگا اور وہ دوکان پر آکر گالی گلوچ کرنا طنز کسنا یہ سب کرتی تھی اور ایک دن ۱۰/۴/۲۰۱۵ء کو میری دوکان پر آئی اور میرے سے بنا کچھ بات کئے میرے کو ایک طمانچہ مار دیا، میں بہت غصہ میں آگیا اور میں نے اُس کو دو طلاق دے دی، اور معاملہ دو دن میں ٹھنڈا ہوگیا تو لوگوں نے میرے سے پوچھا کہ کیا ہوا میں نے بولا کہ میں نے اُس کو طلاق دے دی ہے ،وہ بولے کتنے؟ میں نے ان کو جھوٹ بولا اور ان کو بولا تین۔ اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں جو میں نے جھوٹ بولا اس کا کیا معاملہ ہے؟ تفصیل فرمائیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کیونکہ میں اب اُس کو رکھنا چاہتا ہوں۔

    جواب نمبر: 68568

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1007-1232/SN=12/1437

    جب فی الواقع آپ نے صرف دوطلاق دی ہے تو بیوی پر دوہی طلاق پڑی، ایسی صورت میں عدت کے اندر رجعت کی گنجائش ہے، اگر عدت گزر چکی ہے تو باہم رضامندی سے نکاح کرکے دیانةً ایک ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کی گنجائش ہے؛ لیکن تین طلاق کا آپ نے جو جھوٹا اقرار کیا اگر قابلِ اعتماد ذریعہ (جس کا اقل درجہ یہ ہے کہ ایک عادل دین دار شخص بتلائے) سے اس کی اطلاع بیوی کو پہنچ گئی تو پھر رجعت؛ بلکہ تجدیدِ نکاح کے باوجود بیوی کے لیے آپ کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنا جائز نہ ہوگا، ایسی صورت میں آپ رجعت یا تجدیدِ نکاح کا ارادہ ترک کردیں، اگر رکھنا ہی تو حلالہٴ شرعی کے بعد رکھیں۔ لو أکرہ علی أن یقر باطلاق فأقرّ لایقع کما لو أقر بالطلاق ہازلاً أو کاذباً الخ (درمختار مع الشامی ۴/۴۴۳، ط: زکریا)نیز دیکھیں (ص: ۴۶۳/۴)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند