• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 67589

    عنوان: نکاح سے پہلے غصہ میں ڈرانے کے لئے طلاق دینا

    سوال: میں ایک لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ اس سے شادی بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اکثر میں بات کرتا ہوں تاکہ وہ نما روزے کی پابند رہے ۔ اور میری محبت قائم رہے ۔ ایک دن میں بہت زیادہ غصہ ہوا کسی بات پہ۔ اور وہ میری بات نہیں مان رہی تھی تو میں اپنی قدر کا احساس دلانے کے لئے اس سے کہا کہ میں تمہیں چھوڑ د وں گا۔ پھر بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑا۔ تو میں نے سوچا کہ طلاق کے ذریعے ڈرا دوں۔ پھر میں سوچا کہ ایسے طلاق دوں کہ طلاق بھی نہ ہو اور اسے میری قدر کا احساس ہو جائے ۔ میں نے کہا کہ شادی کے بعد تجھے تین طلاق ہو۔ میں اپنی شادی کا نام بھی نہیں لیا تھا۔ بس آدھا جملہ بولا تا کہ طلاق نہ ہو۔ اپنی شادی کے لئے نہیں کہا تھا۔ کسی اور کے لففظ کا استعمال اس لیے نہیں کیا کیونکہ وہ ڈرتی نہیں۔ اگر یہاں میری ہی شادی مراد ہو تو اب اسکا کیا مسئلہ ہے ۔ طلاق کی نیت نہیں بلکہ ڈرانا مقصود تھا۔ مجھے اسی لڑکی سے شادی کرنی ہے میں بہت محبت کرتا ہوں۔ طلاق ہوئی یا نہیں۔ اگر نکاح کے بعد طلاق واقع ہو گئی تو کیا حلالہ کرنا ہوگا؟ اگر طلاق وقع ہو جائے تو اگردوسرے شخص سے نکاح کے بعد بغیرہمبستری کئے طلاق دیدے تو کیا میرے لئے حلال ہو جائے گی۔ اس کا کچھ ایسا حل نکا لیں کی نکاح بھی ہو جائے اور طلاق بھی نہ ہو۔ جواب ذرا جلدی دیں۔ شادی کے دن قریب ہیں ۔

    جواب نمبر: 67589

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 907-1104/Sd=2/1438

    صورتِ مسئولہ میں شادی سے پہلے مذکورہ عورت سے اگر آپ نے یہ جملہ کہا ہے کہ: ”شادی کے بعد تجھے تین طلاق ہو“ تو ایسی صورت میں شادی کے بعد تین طلاق واقع ہوجائے گی، خواہ آپ کی نیت طلاق دینے کی نہ ہو، صرف ڈرانا مقصود ہو، اس لیے کہ یہ بھی تعلیقِ طلاق کی ایک صورت ہے، فقہائے کرام نے صراحتا اس صورت کو ذکر کیا ہے اور وقوع طلاق کا فیصلہ کیاہے، اب مذکورہ عورت کے ساتھ نکاح کا طریقہ کہ جس میں نکاح کے بعد کوئی طلاق واقع نہ ہو یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص فضولی بن کر آپ سے اجازت لئے بغیر مذکورہ عورت سے آپ کا نکاح کرادے اور جب آپ کو اس نکاح کی اطلاع ملے، توآپ زبان سے اس کی اجازت نہ دیں؛ بلکہ بالفعل رضامندی ظاہر کردیں، مثلاً اس عورت کے پاس مہر کی رقم بھیج دیں، تو ایسی صورت میں مذکورہ عورت آپ کی منکوحہ بن جائے گی اور شادی کے بعد اُس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ قال ابن نجیم: ولو أضافہ الی النکاح، لا یقع، کما لو قال: أنت طالق مع نکاحک أو في نکاحک ذکرہ في الجامع بخلاف أنت طالق مع تزوجي ایاک، فانہ یقع، وہو مشکل، وقیل: الفرق أنہ لما أضاف التزوج الی فاعلہ واستوفی مفعولہ، جعل التزویج مجازا عن الملک، لأنہ سببہ، وحمل ”مع“ علی ”بعد“ تصحیحاً لہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (البحر الرائق: ۴/ ۶، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ط: زکریا، الدر المختار مع رد المحتار: ۳/ ۳۴۶، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ط: دار الفکر، بیروت) والحیلة فیہ ما في البحر من أنہ یزوجہ فضولي، ویجیز بالفعل کسوق الواجب إلیہا۔ (رد المحتار۴/ ۵۹۴ زکریا) واضح رہے کہ شادی سے پہلے کسی لڑکی سے بات چیت کرنا، تعلق رکھنا شرعا ناجائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند